سناٹے کے شور سے پھر آوازوں کا صحرا چمکا
سناٹے کے شور سے پھر آوازوں کا صحرا چمکا
زیر فلک جو اب تک خوابیدہ تھا وہ فتنہ چمکا
دشت ہوا کے دوش پہ وحشی خوشبو نے پر پھیلائے
رنگ ہوا بیدار انگڑائی سانپ نے لی شعلہ چمکا
پتھر شیشہ چاندی سونا موتی ہیرا شمس قمر
حیرت وحشت خاک سمندر پیکر آئینہ چمکا
شہر سیاہ پہ ٹوٹی ہوں گی کیسی کیسی تلواریں
پردۂ خواب پہ گزرا منظر بے چمکے کیا کیا چمکا
ساحر لشکر صبر فصیل تک آ کے رجز خواں ہوتا ہے
تو بھی حصار جاں سے نکل کر خنجر گرم نوا چمکا
رات پہاڑ پہ بجلی تڑپی پتھر ٹوٹا آگ لگی
پل بھر کو میرے کمرے کی کھڑکی کا شیشہ چمکا
کاروبار جما ہے پھر سے تیر تبر تلواروں کا
مدت سے جو سرد پڑا تھا آہوں کا دھندا چمکا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.