سرسبز ہے جو موسم گل میں چمن تمام
سرسبز ہے جو موسم گل میں چمن تمام
اپنا بھی چاک چاک ہوا پیرہن تمام
ہستی میں بھی تو بھولا نہ اہل عدم کو میں
غربت میں یاد آئے مجھے ہم وطن تمام
خوش اعتقاد ہو گئے اس بت کو دیکھ کر
زنار توڑ ڈالیں گے اب برہمن تمام
ہستی میں جو عدم سے نہ آئے وہ خوب ہے
جو آئے گا اٹھائے گا رنج و محن تمام
میں بد نصیب شومیٔ قسمت سے رہ گیا
پہنچا ہوں کب جب اٹھ گئی وہ انجمن تمام
آرائش جمال کی کمسن کو کیا تمیز
الجھی ہے اس کی زلف شکن در شکن تمام
شاید چمن میں آمد فصل بہار ہے
پھر ہو گئے ہرے مرے زخم کہن تمام
سوز دروں کے ضبط کا یارا نہیں رہا
معمور آبلوں سے ہے اپنا دہن تمام
دیرینہ خم اگر ہے تو ہے آسمان پیر
اس میں بھری ہوئی ہے شراب کہن تمام
گل کیا سوا ہو اس سے کہیں نازکی میں تم
آئینے سے ہے صاف تمہارا بدن تمام
اللہ عندلیب ہوں میں کس قماش کا
گل اس چمن کے مجھ پہ ہیں کیوں خندہ زن تمام
صد شکر بندہ حرص و ہوا کا نہیں ہوں میں
ہم راہ لے کے جاؤں گا دو گز کفن تمام
افسوس جان شیریں کی پروا نہ کچھ بھی کی
تیشہ سے اپنا کام کیا کوہ کن تمام
دیوانے ہو گئے ترے وحشی کو دیکھ کر
جنگل میں اپنی چوکڑی بھولے ہرن تمام
سودا جو صبرؔ مجھ کو ہے مژگان یار کا
نشتر ہی بن گئے ہیں مرے موئے تن تمام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.