شمع کو اپنی وفا کا ظرف دکھلانے سے ہے
شمع کو اپنی وفا کا ظرف دکھلانے سے ہے
ایک پروانے کو مطلب جل کے مر جانے سے ہے
اشک پینے سے مرے نمکین ہے پانی یہاں
غم کی جو لذت یہاں ہے میرے غم کھانے سے ہے
میرے ہونے سے ہی سارے میکدے آباد ہیں
ساغر و مینا کی مستی میرے پیمانے سے ہے
کچھ دوا دارو سے اس کو حیف مطلب ہی نہیں
میرے چارہ گر کو مطلب درد بڑھ جانے سے ہے
تیرے غم کی سوزشیں ہیں میرے غم کی تاب سے
تیرے افسانے کی شہرت میرے افسانے سے ہے
کیسی یہ بادہ پرستی ہے تمہاری زاہدو
مے تو پینی ہے مگر پرہیز میخانے سے ہے
سب پہ طاری خامشی ہے میری خاموشی کو سن
سب کے دل میں شور برپا میرے چلانے سے ہے
حسن کو مطلوب ہے کچھ سوز و ساز عاشقی
شمع کا چرچا بھی آخر رقص پروانے سے ہے
کل تلک بے رنگ و بو تھے سب مرے دیوار و در
آج آنگن میں یہ رونق تیرے آ جانے سے ہے
میرے ہی فرط جنوں سے زندگانی ہے سحرؔ
اور سکوت بزم ہستی میرے مر جانے سے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.