شوق سے فرقت ساقی میں میں ساغر کے عوض
شوق سے فرقت ساقی میں میں ساغر کے عوض
اشک پی جاتا ہوں میں بادۂ احمر کے عوض
زلف کو چوم کے لام لب دلبر کے عوض
زہر کھا لیتے ہیں ہم قند مکرر کے عوض
کھو کے دل بوسۂ لام لب دلبر کے عوض
میم محروم ہوئے میم مقدر کے عوض
دیکھ او قاتل بے رحم گریباں میرا
بوسے لیتا ہے گلو کے لب خنجر کے عوض
شوق آرائش رخ ہو تو پہن لو اے جان
اشک دامن سے اٹھا کر مرے گوہر کے عوض
آبرو پائی بن گوش صنم سے مل کر
دانۂ اشک نے کیا دانۂ گوہر کے عوض
بار احساں نے ترے یار جھکایا ایسا
پاؤں پر آ گئی دستار مری سر کے عوض
بے تکلف تری شمشیر مجھے اے قاتل
زیور زخم پنہا دیتی ہے زیور کے عوض
خاکساران محبت کو ترے کوچے میں
ہاتھ آئی ہے زمیں گور کے بستر کے عوض
دیکھتا کیا ہے مرے قتل کے بعد اے قاتل
قطرۂ خوں ہیں تری تیغ میں جوہر کے عوض
پرورش بعد فنا جسم کی کرنے کے لئے
دامن گور ملا دامن مادر کے عوض
جلوے دکھلانے لگی صفحۂ تن پر کیا کیا
فرط کاہش سے ہر اک رگ رگ مسطر کے عوض
بادۂ رشک سے لبریز ہوا اے ساقی
حلقۂ چشم مرا حلقۂ ساغر کے عوض
آتش رشک نے جس وقت کیا سرد مجھے
تن مرا گرم رہا سینۂ مجمر کے عوض
جا پہنچتا ہے خیال دل ناداں اس تک
جذب کامل سے شب غم میں پیغمبر کے عوض
چشم ظاہر سے تو کیا دیدۂ باطن سے کبھی
روئے مہتاب نہ دیکھوں رخ دلبر کے عوض
آتش رشک سے ہے پرورش دل ہر دم
آپ کے عشق میں اے یار سمندر کے عوض
کیا لڑاؤں تری آنکھوں سے میں اے جان آنکھیں
چادر اشک مرے منہ پہ ہے چادر کے عوض
در دنداں کے تصور میں لٹا کر در اشک
میم مفلس ہوئے ہم تائے تونگر کے عوض
حکم دیتا ہے شگفتہؔ مجھے مے نوشی کا
حلقۂ چشم مرا ہجر میں ساغرؔ کے عوض
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.