سنا ہے کہ تم چاہتے ہو کسی کو کچھ احوال اپنی زبانی کہو تو
سنا ہے کہ تم چاہتے ہو کسی کو کچھ احوال اپنی زبانی کہو تو
یہ کیا اکھڑی اکھڑی سی باتیں ہیں صاحب یہ دوبھر ہے کیوں زندگانی کہو تو
سنیں ہم بھی ہے کون وہ ماہ پارہ کہ اس گھاٹ جس نے تمہیں ہے اتارا
یہ کس کے لیے اس قدر مضطرب ہو مٹائے ہو اپنی جوانی کہو تو
مسیحائے دوراں ہو تم میں نے جانا کرو چارہ سازی تو احسان مانوں
کرو گے کوئی درد کا میرے درماں دکھاؤں میں داغ نہانی کہو تو
بتاتا تو ہوں بات میں اپنے دل کی مگر بات پھر میری ہیٹی نہ کرنا
میں خوددار ہوں ضبط ہے میرا شیوہ سناؤں میں اپنی کہانی کہو تو
لو آؤ اسی بات پر عہد کر لیں ہمارے ہوئے تم تمہارے ہوئے ہم
نہیں تم زباں سے اگر اپنی پھرتے تو پھر کیوں ہے یہ آنا کانی کہو تو
کہاں آشیانہ وہ اپنا چمن میں یا اب بند ہوں تیلیوں میں قفس کی
اسیری پہ اپنی مجھے ہے تعجب مگر مان لوں دانہ پانی کہو تو
بتاؤ تو اے خارؔ کیا تم پہ گزری وہ آغاز الفت کی باتیں ہوئیں کیا
نہیں ہے وہ انداز اب گفتگو کا ہوئی کیا وہ شعلہ بیانی کہو تو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.