ان کے در پر قیام رکھتے ہیں
ان کے در پر قیام رکھتے ہیں
ایک اونچا مقام رکھتے ہیں
انگنت آرزوئیں ہیں دل میں
شیشہ رکھتے ہیں جام رکھتے ہیں
ہیں تجسس طلب جو زیر نظر
جادۂ نا تمام رکھتے ہیں
مدفنوں کی پکار سن سن کر
اپنی ہستی کو تھام رکھتے ہیں
شعلہ سامانیوں کی ٹھنڈک ہے
ہم بھی پھولوں سے کام رکھتے ہیں
پلتی ہے صبح بھی ان آنکھوں میں
رات کا احترام رکھتے ہیں
باد پائی پہ ناز ہے ہم کو
اور زباں پر لگام رکھتے ہیں
سینہ عریاں رم آشنا نہ سہی
قیس اپنا جو نام رکھتے ہیں
اک تصور میں ایک نظروں میں
صبح رکھتے ہیں شام رکھتے ہیں
کچھ تو جیب قبائے شب میں ہو
اک تلاش مدام رکھتے ہیں
ہم سزاوار بخشش آپ ہوئے
معصیت پر دوام رکھتے ہیں
زندہ اب بھی ہیں وصل ہو ناظرؔ
انتظاروں سے کام رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.