ان کی محفل میں چلی ہے مرے افکار کی بات
ان کی محفل میں چلی ہے مرے افکار کی بات
فکر نے میری سجھائی ہے مجھے دار کی بات
زردیٔ عارض دل آج بھی باقی ہے مری
عمر بھر کرتا رہا عارض گلنار کی بات
فاصلے ختم ہوئے جادہ بنا کوئے عدم
کس کو سمجھاؤں تری شوخئ رفتار کی بات
آدمی نظم خدائی سے الجھ بیٹھا ہے
اب یہاں سجدے کی ہوتی ہے نہ زنار کی بات
اپنی آواز سے بھی شاہ لرز اٹھتے ہیں
جب محلات میں ہو کوچہ و بازار کی بات
ساری دنیا در مقتل پہ سمٹ آئی ہے
آمد سیل ہے کیا ہو در و دیوار کی بات
اک تسلسل کے سوا کھیل میں کیا رکھا ہے
بے خبر کرتے ہیں کیوں جیت کی اور ہار کی بات
کر رہا ہوں میں رگ زیست سے پھر خون کشید
آئے گی ان کے لبوں پر ابھی ایثار کی بات
جانے کیوں فکر مری شعلہ فشاں ہوتی ہے
جب بھی کرتا ہے کوئی خسروی دربار کی بات
تم اگر چاہو تو میں ناگ سے ڈسوا لوں گا
سامنے میرے نہ کرنا کسی زردار کی بات
یاد آئے مجھے ویتنام سے اٹھتے شعلے
جب بھی چھیڑی ہے غم دل نے قد یار کی بات
محتسب نغمۂ پازیب کا پابند ہوا
شہر کے لب پہ ہے زنجیر کی جھنکار کی بات
نہ مسرت کا تصور ہے نہ غم کی تخئیل
زندگی اپنی ہے جیسے کوئی بیگار کی بات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.