وہ صفائی کبھی جو ہم سے ملاقات میں تھی
وہ صفائی کبھی جو ہم سے ملاقات میں تھی
صاف کل ساختگی اس کی ہر اک بات میں تھی
جو بھلی آ کے کہی سحر ہے سمجھا نہ اسے
کل بری جو کہی داخل وہ کرامات میں تھی
ہے دل غیر کو اس ناوک مژگاں سے اب انس
جو کہ نت اپنے جگر دوزیوں کے گھات میں تھی
سنتے ہیں غیر سے وہ بات بآواز بلند
کیا قیامت ہے کہ جو ہم سے اشارات میں تھی
کیا غضب ہے وہی آئینہ پن اب لاکھ سے ہے
جو صفائی کبھی ہم سے کسی اوقات میں تھی
کوئی حاجت نہیں اب غیر کی جو ہو نہ روا
یہ تو آگے نہ مرے قبلۂ حاجات میں تھی
اتنا جویائے ملاقات نہ ہوتا تھا لطفؔ
شکل نبھنے کی جو کچھ تھی سو مساوات میں تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.