وہ سنتے ہی نہیں تو ہوئی داستاں عبث
وہ سنتے ہی نہیں تو ہوئی داستاں عبث
شکوے عبث ہمارے ہمارا بیاں عبث
لیتے ہیں بیکسوں کے دل و دین و جاں عبث
ترکان شوخ لوٹتے ہیں کارواں عبث
دنیا میں جب خدا ہی بتوں کو بنا چکا
کرتا ہے اور فکر ستم آسماں عبث
تصویر کی طرح ہیں تری بزم میں خموش
گویا ہوئی ہے خلق ہماری زباں عبث
دل مبتلائے درد و الم تھا گیا گیا
لی جان بھی بتوں نے ہوا یہ زیاں عبث
یوں ہی ستم کشوں سے تغافل اگر رہا
بے سود ہے امید وفا امتحاں عبث
ہونی ہے ایک روز خزاں اس بہار کی
گلشن میں کیوں بنائے کوئی آشیاں عبث
اس کے سوا ہے ہیچ مجھے جملہ کائنات
وہ ہی نہ ہو نظر میں تو کون و مکاں عبث
باقی ہے دل کے جانے کا سینہ میں ایک داغ
ہوتا ہے بعد زخم کے جیسے نشاں عبث
سوتے ہیں وہ کنار عدو میں تمام رات
مثل اذان صبح یہاں ہے فغاں عبث
اس کی وہ گفتگو وہ تبسم کہاں نصیب
بلبل کی ہے زبان تو گل کا دہاں عبث
وہ بعد مرگ میری عیادت کو آئے ہیں
نا مہرباں ہوئے بھی اگر مہرباں عبث
آزار تازہ اے ستم ایجاد مجھ کو دے
خو ہو کے ہو گیا ہے غم جاوداں عبث
انجام شوق وصل بتاں جانتا تو ہے
رہتا ہے بے قرار مرا رازداں عبث
ٹھوکر لگائیں یہ بھی گراں نازکی سے ہے
رکھتا ہوں ان کی رہ میں سر ناتواں عبث
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.