یار کا پاؤں تو عالم کا دہاں سر ہوتا
یار کا پاؤں تو عالم کا دہاں سر ہوتا
کاشکے میں بھی در یار کا پتھر ہوتا
بوسے لیتا لب شیریں کے جو ساغر ہوتا
شیشہ ہوتا تو میں ہم پہلوئے دلبر ہوتا
جلوہ فرما جو کبھی وہ مہ انور ہوتا
شرف منزل خورشید میرا گھر ہوتا
دل عاشق کے یہ سو ٹکڑے کہاں سے ہوتے
تیغ ابرو میں جو غمزے کا نہ جوہر ہوتا
ورق گل پہ ترے چہرے کی لکھتا توصیف
رگ بلبل سے اگر رشتۂ مسطر ہوتا
آتش عشق کی دل ہی ہے کہ لاتا ہے تاب
خاک ہوتا جو اس آتش میں سمندر ہوتا
لب رنگیں کا اگر رنگ دکھاتا وہ شوخ
لعل بے رنگی سے بلور کا پتھر ہوتا
ہوش ہو جاتے رفو چکر ادھڑتے ٹانکے
زخم دل سینے کے درپے جو رفوگر ہوتا
اپنی بیتابیٔ دل کی بھی میں لکھتا حالت
خط کے پہنچانے کو لوٹن جو کبوتر ہوتا
جوش وحشت کے سبب راہ پہ آتا نہ کبھی
تیرے آوارہ کا گر خضر بھی رہبر ہوتا
قد بالا کے تصور میں جو کرتا فریاد
میرے نالوں کا گزر عرش بریں پر ہوتا
آج ہوتا جو سلیماں تو تری رکھتا مہر
آئنہ تجھ کو دکھاتا جو سکندر ہوتا
کسی حالت میں نہیں مجھ کو سرور اے باقیؔ
نشۂ مے سے مرے سر میں ہی چکر ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.