یہ نا سپاسیٔ گلچیں جھلک نہیں رہی ہے
یہ نا سپاسیٔ گلچیں جھلک نہیں رہی ہے
صبا کے بھیس میں صرصر تھرک نہیں رہی ہے
فضا میں رقصاں ہے ناآشنائے محض ہوا
جبھی تو شاخ محبت لچک نہیں رہی ہے
ہزار غلطاں و پیچاں ہوں اب پرندوں میں
وہ تنکے جوڑنے والی للک نہیں رہی ہے
ہے صاف صاف یہ اوراق گل پہ لکھا ہوا
گھڑی خزاں کی ذرا بھی سرک نہیں رہی ہے
گئی رتوں کے حوالوں سے گل کھلاتا ہے
اسے خود اپنی ذلالت کھٹک نہیں رہی ہے
فشار گرد سے منظر تمام اٹا ہوا ہے
چمن پرست نظر پھر بھی تھک نہیں رہی ہے
مرا بھی دھوپ میں اب سر ٹنکنے لگتا ہے
کمر پہ اس کے بھی چوٹی لٹک نہیں رہی ہے
الجھ کے رہ گئی تار نفس میں حسرت دل
بھری ہے آنکھ پلک تک جھپک نہیں رہی ہے
حلال کر گیا ہر آرزو وہ جاتے ہوئے
غم فراق میں لذت تلک نہیں رہی ہے
خدا کرے کہ وہ خوش حال و سرفرازؔ رہے
کسک بہ نام بھی دل میں کسک نہیں رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.