ذکر وفا پہ کہتے ہیں تیری وفا ہے کیا
ذکر وفا پہ کہتے ہیں تیری وفا ہے کیا
معلوم ہے کہ عشق میں اس کی سزا ہے کیا
ملتا ہے بے طلب تو طلب اور دعا ہے کیا
سنئے طریق شکر کا اس کے سوا ہے کیا
مردہ دلوں سے کوئی توقع فضول ہے
مر کر بھی آج تک کوئی زندہ ہوا ہے کیا
تم تو تمہیں ہو آئنہ جو چاہے وہ کہے
اہل نظر کے سامنے بہروپیا ہے کیا
بنتا ہے قلب نقد تو ہوتا ہے نقد قلب
وہ سیمیا ہے اس کی نظر کیمیا ہے کیا
ہر شے میں جلوہ گر ہے تو ہر شے سے بے نیاز
کیوں کر پتہ چلے کہ سوا ماسوا ہے کیا
آنکھوں میں اشک رنگ پریدہ حواس گم
اے نامہ بر بتا تو سہی ماجرا ہے کیا
دو چار جام دے تو دیے محتسب تجھے
توبہ کا اور اس کے سوا خوں بہا ہے کیا
ہر ہر نفس نفس نہیں بانگ رحیل ہے
اہل خرد کے واسطے بانگ درا ہے کیا
قائم ہے اس کی سمت نہ لغزش نہ اضطراب
میری جبیں کے سامنے قبلہ نما ہے کیا
کشتی خدا پہ چھوڑ دے اے میر کارواں
طوفان کس کو کہتے ہیں اور ناخدا ہے کیا
شاغلؔ قمر کے حسن محبت کا ہے اثر
ورنہ شراب شعر میں باقی نشہ ہے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.