زندہ ہو جاتا ہوں میں جب یار کا آتا ہے خط
زندہ ہو جاتا ہوں میں جب یار کا آتا ہے خط
روح تازہ مردہ دل کے واسطے لاتا ہے خط
تہنیت نامہ نہیں یہ اے مرے پیغامبر
اس سے کہنا اشک خوں سے سرخ ہو جاتا ہے خط
سر زمین قاف پر ہے فوج زنگی کا ہجوم
یہ سماں تیرے رخ انور پہ دکھلاتا ہے خط
دھمکیاں تحریر ہوں یا ظلم کا مضمون ہو
پھر یہ میرے دل کو اے دل دار بہلاتا ہے خط
دے کے خط قاصد سے واپس کر لیا یہ کہہ کے ہائے
اس کو ہوتی ہے تسلی جب مرا جاتا ہے خط
حالت گریہ میں نامہ بر کی کچھ حاجت نہیں
اشک کے سیلاب میں بہتا ہوا جاتا ہے خط
کیا شب فرقت کی تیری بے قراری درج ہے
نامہ بر کو کیوں ترا اے برقؔ تڑپاتا ہے خط
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.