اشوک کمار
نجم الحسن جب دیوکارانی کو لے اڑا تو بمبئی ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجم الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔ بمبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسورائے تھا۔ دیوکارانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغ پس پردہ۔‘‘
ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبئی ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسورائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکارانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسورائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمت عملی سے دیوکارانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجم الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔
دیوکارانی واپس آگئی۔ ایس مکرجی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسورائے کو بھی اپنی حکمت عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کرلیں،اور بے چارہ نجم الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمت عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کردیا تھا۔ زیر تکمیل فلم سے نجم الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنادیوکارانی کے لئے سیلولائڈ کا ہیرو کون ہو۔
ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔۔۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیےکہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجم الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)
یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کرکے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گابجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیل تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔ جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کردیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کےخلاف اظہار خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکارانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔
ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔۔۔ کئی فلم بنے اور دیوکارانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کامیاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکارانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلولائڈ پر شیروشکر ہوکر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الھڑ غمزے۔۔۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔ لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کی گرویدہ ہوگیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔
تو بن کی چڑیا۔ میں بن کا پنچھی بن بن بولوں رے
میں نے اشوک کے چند فلم دیکھے۔ دیوکارانی اس کے مقابلے میں جہاں تک کردار نگاری کا تعلق ہے میلوں آگے تھی۔ اور ہیرو کے روپ میں اشوک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چوکولیٹ کا بنا ہے مگر آہستہ آہستہ اس نے پر پرزے نکالے اور بنگال کے آدرش افیمی عشق کی پینک سے بیدار ہونے لگا۔
اشوک جب لیبارٹری کی چلمن سے باہر نکل کر نقرئی پردے پر آیا تو اس کی تنخواہ پچھتر روپے مقرر ہوئی۔ اشوک بہت خوش تھا۔ ان دنوں اکیلی جان کے لیے اور وہ بھی شہر سے دور دراز گاؤں’’ملاڈ‘‘ میں اتنے روپے کافی تھے۔ جب اس کی تنخواہ ایک دم دوگنی ہوگئی یعنی ایک سو پچاس روپے ماہوار تو وہ اور بھی زیادہ خوش تھا۔ لیکن جب ڈیڑھ کے ڈھائی مقرر ہوئےتو وہ گھبرا گیا۔ اس نے مجھے اس وقت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا، ’’بائی گوڈ۔۔۔ میری حالت عجیب وغریب تھی۔ ڈھائی سو روپے۔۔۔ میں نے کیشیر سے نوٹ لیے تو میرا ہاتھ کانپنے لگا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنے روپے کہاں رکھوں گا۔۔۔ میرا گھر تھا۔۔۔ ایک چھوٹا سا کوارٹر۔ ایک چارپائی تھی، دو تین کرسیاں، چاروں طرف جنگل۔۔۔ رات کو اگر کوئی چور آجائے۔۔۔ یعنی اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ میرے پاس ڈھائی سو روپے ہیں تو کیا ہو۔۔۔؟ میں ایک عجیب چکر میں پڑ گیا۔ چوری ڈکیتی سے میری جان جاتی تھی۔ گھر آکر بہت اسکیمیں بنائیں۔ آخریہ کیا کہ وہ نوٹ چارپائی کے نیچے بچھی ہوئی دری میں چھپائے۔۔۔ ساری رات بڑے ڈراؤنے خواب آتے رہے۔۔۔ صبح اٹھ کر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ وہ نوٹ اٹھا کر ڈاک خانے میں جمع کرادیے۔‘‘
اشوک مجھے یہ بات اپنے مکان پر سنا رہا تھا کہ کلکتے کا ایک فلم ساز اس سے ملنے آیا۔ کنٹریکٹ تیار تھا مگر اشوک نے اس پر دستخط نہ کیے۔ وہ اسی ہزار روپے دیتا تھا اور اشوک کمار کا مطالبہ پورے ایک لاکھ کا تھا۔۔۔ کہاں ڈھائی سو روپے اور کہاں ایک لاکھ!
بمبے ٹاکیز میں اشوک کے ساتھ ساتھ اس کے بہنوئی ایس مکر جی نے بھی ترقی کی۔ آدمی ذہین تھا۔۔۔ گردوپیش جو کچھ بھی ہوتا اس کا بنظرِ غائر مطالعہ کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ پروڈیوسر بن گیا۔۔۔ معمولی پروڈیوسر نہیں بہت بڑا پروڈیوسر، جس نے بمبے ٹاکیز کے جھنڈے تلے کئی سلور اور گولڈن جوبلی فلمیں بنائیں اور منظر نگاری میں ایک خاص اسکول کی بنیاد ڈ الی۔۔۔ راقم الحروف اس صنف میں اس کو اپنا استاد مانتا ہے۔
اشوک کی ہر دل عزیزی دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ چونکہ وہ باہر بہت ہی کم نکلتا تھا اور الگ تھلگ رہتا تھا۔ اس لیے جب لوگ کہیں اس کی جھلک دیکھ پاتے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ چلتی ٹریفک بند ہو جاتی۔ اس کے چاہنے والوں کے ٹھٹھ لگ جاتے اور اکثر اوقات پولیس کے ڈنڈے کے زور سے اسے ہجوم کی بے پناہ عقیدت سے نجات دلانا پڑتی۔
اشوک اپنے عقیدت مندوں کے والہانہ اظہار کو وصول اور برداشت کرنے کے معاملے میں بہت ہی ذلیل واقع ہوا ہے۔ فوراً ہی چڑ جاتا ہے۔ جیسے کسی نے گالی دی ہے۔ میں نے اس سے کئی دفعہ کہا، ’’دادا منی۔ تمہاری یہ حرکت بڑی واہیات ہے۔۔۔ خوش ہونے کے بجائے تم ناراض ہوتے ہو۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ تم سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ بات سمجھنے کے لئے شاید اس کے دماغ میں کوئی ایسا خانہ ہی نہیں ہے۔
محبت سے وہ قطعاً ناآشنا ہے (یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے ا س عرصے میں اس کے اندر کیا تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، ان کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا) سیکڑوں حسین لڑکیاں اس کی زندگی میں آئیں مگروہ نہایت ہی روکھے انداز میں ان کے ساتھ پیش آیا۔ طبعاً وہ ایک ٹھیٹ جاٹ ہے۔ اس کے کھانے پینے اور رہنے سہنے میں ایک عجیب قسم کا گنوار پن ہے۔
دیوکارانی نے اس سے عشق کرنا چاہا مگر اس نے بہت ہی غیرصناعانہ انداز میں اس کی حوصلہ شکنی کی۔ ایک اور ایکٹرس نے جرأت سے کام لے کر اس کو اپنے گھر بلایا، اور بڑے ہی نرم و نازک طریقے سے اس پر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ مگر جب اشوک نے بڑے بینڈے پن سے اس کا دل توڑا، تو اس غریب کو پینترہ بدل کر یہ کہنا پڑا، ’’میں آپ کا امتحان لے رہی تھی۔ آپ تو میرے بھائی ہیں۔‘‘
اشوک کو اس ایکٹرس کا جسم پسند تھا۔ ہر وقت دھلی دھلی، نکھری نکھری رہتی تھی۔ اس کی یہ چیز بھی اشوک کو بہت بھاتی تھی۔ چنانچہ جب اس نے قلابازی لگا کر اس کو اپنا بھائی بنالیا تو اشوک کو کافی کوفت ہوئی۔ اشوک عشق پیشہ نہیں لیکن تاک جھانک کا مرض اس کو عام مردوں کا سا ہے۔ عورتوں کی دعوت طلب چیزوں کو باقاعدہ غور سے دیکھتا ہے اور ان کے متعلق اپنے دوستوں سے باتیں بھی کرتا ہے۔ کبھی کبھار کسی عورت کی جسمانی قربت کی خواہش بھی محسوس کرتا ہے۔ مگر بقول اس کے، ’’منٹو یار۔۔۔ ہمت نہیں پڑتی۔‘‘
ہمت کے معاملے میں وہ واقعی بہت بودا ہے لیکن یہ بودا پن اس کی ازدواجی زندگی کے لیے بہت ہی مبارک ہے۔ اس کی بیوی شوبھا سے اگر اس کی اس کمزوری کا ذکر کیا جائے تو یقیناً وہ یہی کہے گی، ’’خدا کا شکر ہے کہ گانگولی میں ایسی ہمت نہیں اور خدا کرے اس میں یہ ہمت کبھی پیدا نہ ہو۔‘‘
مجھے حیرت ہے کہ اس میں یہ ہمت اور جرأت کیوں پیدا نہ ہوئی۔ جب کہ سیکڑوں لڑکیوں نے جراتِ رندانہ سے کام لے کر اس کو عشق کی آگ میں کودنے کی ترغیب دی۔ اس کی ذاتی ڈاک میں بلامبالغہ ہزاروں عورتوں کے عشق و محبت سے لبریز خطوط آئے ہوں گے۔ مگر جہاں تک میں جانتا ہوں، خطوط کے اس انبار میں سے اس نے شاید ایک سو بھی خود نہیں پڑھے۔۔۔ خط آتے ہیں، اس کا مریل سیکرٹری ڈی سوزا انہیں مزے لے لے کر پڑھتا ہےاور دن بدن مریل ہوتا جاتا ہے۔
تقسیم سے چند ماہ پہلے اشوک فلم چندر شیکھر کے سلسلے میں کلکتے میں تھا۔ شہید سہروردی (اس وقت وزیراعظم بنگال) کے ہاں سے سولہ ملی میٹر فلم دیکھنے کے بعد اپنے ڈیرے لوٹ رہا تھا کہ راستے میں دو خوبصورت اینگلو انڈین لڑکیوں نے اس کی موٹر روکی اور لفٹ چاہی۔ اشوک نے چند منٹ کی یہ عیاشی تو کرلی مگر اسے اپنے نیے سگرٹ کیس سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ایک لڑکی جو شوخ وشنگ تھی، سگریٹ کے ساتھ سگرٹ کیس بھی لے اڑی۔ اس واقعے کے بعد اشوک نے کئی بار سوچا کہ ان سے رسم و راہ پیدا کی جائے۔ بات معمولی تھی مگر اس کی ہمت نہ پڑی۔
کولھا پور میں گرز، تلوار اور ڈھال قسم کا بھاری بھر کم ہونق فلم بن رہا تھا اشوک کا تھوڑا سا کام اس میں باقی رہ گیا تھا۔ وہاں سے کئی بلاوے آئے مگروہ نہ گیا۔ اس کی طبیعت اس رول سے بہت متنفر تھی جو اسے ادا کرنے کے لئے دیا گیا تھا۔ مگر کنٹریکٹ تھا۔ آخر ایک روز اسے جاناہی پڑا۔ ساتھ مجھے لے گیا۔ ان دنوں میں فلمستان کے لئے’’آٹھ دن‘‘ نامی فلم لکھ رہا تھا۔ چونکہ یہ فلم اسے پروڈیوس اور ڈائرکٹ کرنا تھی، اس لیے اس نے کہا، ’’چلو یار۔۔۔ وہاں آرام سے کام کریں گے۔‘‘
مگر آرام کہاں۔۔۔ لوگوں کو فوراً معلوم ہوگیا کہ اشوک کمار کولھا پور آیا ہے ,چنانچہ اس ہوٹل کے اردگرد جہاں ہم ٹھہرے تھے, زائرین جمع ہونے شروع ہوگیے۔ ہوٹل کا مالک ہوشیار تھا۔ کسی نہ کسی بہانے وہ ان لوگوں کو منتشر کردیتا۔ لیکن پھر بھی بعض چپکو قسم کے لوگ ہوٹل کا طواف کرتے رہتے۔ اور اپنے محبوب ایکٹر کی زیارت کر ہی لیتے۔ اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ اشوک جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں بہت ہی اکھڑ قسم کا سلوک کرتا رہا۔ مجھے معلوم نہیں ان کا رد عمل کیاتھا،مگر بحیثیت ایک ناظر کے مجھے سخت کوفت ہوتی تھی۔
ایک شام ہم دونوں سیر کو نکلے۔ اشوک ’’کیموفلافہ‘‘ کیے تھا۔ آنکھوں پر چوڑا چکلا گہرے رنگ کا چشمہ۔۔۔ ایک ہاتھ میں چھڑی دوسرے ہاتھ میں میرا کندھا تاکہ حسب ضرورت مجھے آگے پیچھے کرسکے۔ اسی طرح ایک اسٹور میں پہنچے۔ اشوک کو کولہا پور کے اسٹوڈیو کے گردوغبار کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی دوا خریدنا تھا۔ اس نے اسٹور والے سے یہ طلب کی تو اس نے سرسری نظر سے اپنے گاہک کی طرف دیکھا اور الماری کی طرف بڑھا۔ لیکن فوراً ہی ’’ڈی لیڈ ایکشن‘‘ بمب کی طرح پھٹا اور مڑ کر اشوک سے مخاطب ہوا، ’’آپ۔۔۔ آپ کون ہیں؟‘‘
اشوک نے جواب دیا، ’’میں کون ہوں۔۔۔؟میں وہی ہوں جو کہ میں ہوں۔‘‘
اسٹور والے نے غور سے اشوک کے چشمہ اوڑھے چہرے کی طرف دیکھا۔
’’آپ اشوک کمار ہیں؟‘‘
اشوک نے بڑے دل شکن لہجے میں کہا، ’’اشوک کمار کوئی اور ہوگا۔ چلو منٹو۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دوا خریدے بغیر ہی ہم دونوں اسٹور سے باہر تھے۔ ہوٹل کا موڑ مڑنے لگے تو سامنے تین مرہٹی لڑکیاں نمودار ہوئیں۔ بہت صاف ستھری، گوری چٹی، ماتھوں پر کُم کُم، بالوں میں دینیاں (پھولوں کے گجرے) پیروں میں ہلکے پھلکے چپل۔ ان میں سے ایک جس کے ہاتھوں میں موسمبیاں تھیں، اشوک کو دیکھ کر زور سے کانپی۔ بھنچی ہوئی آواز میں اس نے اپنی سہیلیوں سے کہا، ’’اشوک!‘‘ اور اس کے ہاتھوں کی ساری موسمبیاں سڑک پر گر پڑیں۔ اشوک نے میرا کندھا چھوڑا اور بھاگ گیا۔
اشوک سے میری پہلی ملاقات فلمستان میں ہوئی، جب ایس مکر جی کی پوری ٹیم نے بمبے ٹاکیز چھوڑ کر اپنا نیا فلمی ادارہ قائم کرلیا تھا۔ یوں تو میں نے کئی بار اس کی جھلکیاں دیکھی تھیں،مگر اس سے مفصل ملاقات فلمستان میں ہی ہوئی، جب میں وہاں ملازم ہوگیا۔
فلمی دنیا کی ہر شخصیت پردے پر کچھ اور پردے سے دور کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ اشوک کو چنانچہ جب میں نے پہلی مرتبہ قریب سے دیکھا تو پردے کے اشوک سے بہت مختلف تھا۔ گہرا سانولا رنگ، موٹے اور کھردرے ہاتھ، مضبوط کسرتی جسم، نیم گنوار لب و لہجہ، اکھڑا اکھڑا غیر فطری تکلف۔ تعارف کرایا گیا تو میں نے اس سے کہا، ’’آپ سے مل کر بڑی مسرت ہوئی ہے۔‘‘ اشوک نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ موٹے موٹے الفاظ پر مشتمل تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے یہ لفظ رٹے ہوئے ہیں۔
ایک مرتبہ فلمستا ن میں ایک صاحب سیر و تفریح کے لیے آئے۔ آپ نے بڑے پر تکلف انداز میں اشوک سے کہا، ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاکسار کو اس سے پہلے بھی جناب سے شرفِ ملاقات حاصل ہوچکا ہے۔‘‘ اشوک نے گڈ مڈ لہجے میں جواب دیا، ’’جی۔۔۔ جی مجھے کبھی مقابلہ نہیں ہوا۔‘‘ مقابلے کا قاف اس نے حلق سے نکالا۔۔۔ لیکن فوراً ہی اس کو احساس ہوا کہ اس نے یہ لفظ غلط استعمال کیا ہے مگر وہ گول کرگیا۔
اشوک کو اردو بہت اچھی لگتی ہے۔ شروع شروع میں اس نے اس زبان میں لکھنا پڑھنا شروع کیا مگر قاعدے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پھر بھی اس کو تھوڑی سی شدبد ہے۔ ایک دو سطر اردو میں لکھ لیتاہے۔ تقسیم کے بعد جب میں اسے چھوڑ کر بمبے ٹاکیز سے چلا آیاتو اس نے مجھے اردو میں خط لکھا کہ واپس آجاؤمگر افسوس ہے کہ میں چند در چند وجوہ کے باعث اس کا جواب نہ دے سکا۔
میری بیوی بھی دوسری عورتوں کی طرح اشوک کمار کی بہت مداح تھی۔ایک دن میں اشوک کو اپنے گھر لے آیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے زور سے آواز دی، ’’صفیہ۔۔۔ آؤ اشوک کمار آیا ہے۔‘‘ صفیہ اندر روٹی پکا رہی تھی۔ جب میں نے پے در پے آوازیں دیں تو وہ باہر نکلی۔ میں نے اشوک سے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ میری بیوی ہے۔ دادا منی۔۔۔ ہاتھ ملاؤ اس سے۔‘‘ صفیہ اور اشوک دونوں جھینپ گئے۔ میں نے اشوک کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’ہاتھ ملاؤ دادا منی۔۔۔ شرماتے کیا ہو۔‘‘
مجبوراً اسے ہاتھ ملانا پڑا۔ اتفاق سے اس روز قیمے کی روٹیاں تیار کی جارہی تھیں۔ اشوک کھا کے آیا تھا۔ مگر جب کھانے پر بیٹھا تو تین ہڑپ کر گیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ بمبے میں اس کے بعد جب کبھی ہمارے یہاں قیمے کی روٹیاں تیار ہوتیں، اشوک کسی نہ کسی طرح آن موجود ہوتا۔ اس کی توجیہہ میں کرسکتا ہوں نہ اشوک۔ دانے دانے پر مہروالا ہی قصہ معلوم ہوتا ہے۔
میں نے ابھی ابھی اشوک کو د ادا منی کہا ہے۔ بنگلہ میں اس کا مطلب ہے بڑا بھائی۔۔۔ اشوک سے جب میرے مراسم بڑھ گئے تو اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے دادا منی کہا کروں۔ میں نے اس سے کہا، ’’تم بڑے کیسے ہوئے۔ حساب کرلو۔ میں عمر میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘ حساب کیا گیا تووہ مجھ سے عمر میں دو ماہ اور کچھ دن بڑا نکلا۔چنانچہ اشوک اور مسٹر گانگولی کے بجائے مجھے دادا منی کہنا پڑا۔ یہ مجھے پسند بھی تھا۔ کیونکہ اس میں بنگالیوں کی محبوب مٹھائی رس گلے کی مٹھاس اور گولائی تھی۔ وہ مجھے پہلے مسٹر منٹو کہتا تھا۔ جب اس سے د ادا منی کہنے کا معاہدہ ہواتووہ مجھے صرف منٹو کہنے لگا۔ حالانکہ مجھے یہ ناپسند تھا۔
پردے پر وہ مجھے چاکولیٹ ہیرو معلوم ہوتا تھا۔ مگر جب میں نے اس کو سلولائڈ کے خول سے باہر دیکھا تو وہ ایک کسرتی آدمی تھا۔ اس کے مکے میں اتنی قوت تھی کہ دروازے کی لکڑی میں شگاف پڑ جاتا تھا۔ ہر روز گھر پر باکسنگ کی مشق کرتا تھا۔ شکارکھیلنے کا شوقین تھا۔ سخت سے سخت کام کرسکتا تھا۔ افسوس مجھے صرف اس بات کا ہوا کہ اسے آرائش کا قطعاً ذوق نہیں تھا۔ وہ اگر چاہتا تو اس کا گھر دلکش سے دلکش سازو سامان سے آراستہ ہوتا۔ مگر اس طرف وہ کبھی توجہ دیتا ہی نہیں تھا۔ اور اگر دیتا تھا تو اس کے نتائج غیر صناعانہ ہوتے تھے۔ برش اٹھا کر خودہی سارے فرنیچر پر گہرا نیلا پینٹ تھوپ دیتا،یا کسی صوفے کی پشت توڑ کر اسے دیوان کی بھونڈی شکل میں تبدیل کردیا۔
مکان سمندر کے ایک غلیظ کنارے پر ہے۔ نمکین پانی کے چھینٹے باہر کھڑکیوں کی سلاخوں کو چاٹ رہے ہیں۔ جگہ جگہ لوہے کے کام پر زنگ کی پپڑیاں جمع ہیں۔ ان سے بڑی اداسی پھیلانے والی بو آرہی ہےمگر اشوک اس سے قطعاً غافل ہے۔ ریفریجریٹر باہر کوری ڈور میں پڑا جھک مارہا ہے۔ اس کے ساتھ لگ کر اس کا گرانڈیل السیشین کتا سورہا ہے، پاس کمرے میں بچے اودھم مچا رہے ہیں، اور اشوک غسل خانے کے اندر پاٹ پر بیٹھا دیواروں پر حساب لگا کر دیکھ رہا ہے کہ ریس میں کون سا گھوڑا ون آئے گا یا مکالموں کا پرچہ ہاتھ میں لیے ان کی ادائیگی سوچ رہا ہے۔ اشوک کو فراست الیدیعنی پامسٹری اور علمِ نجوم سے خاص شغف ہے۔ موخرالذکر علم اس نے اپنے باپ سے سیکھا ہے، متعدد کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ فرصت کے اوقات میں وہ شغل کے طور پر اپنے دوستوں کی جنم پتریاں دیکھا کرتا ہے۔
میرے ستاروں کا مطالعہ کرکے اس نے ایک دن مجھ سے سرسری طور پر پوچھا، ’’تم شادی شدہ ہو؟‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’تمہیں معلوم نہیں؟‘‘
اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعدکہا، ’’جانتا ہوں۔۔۔ لیکن دیکھو منٹو، ایک بات بتاؤ۔۔۔نہیں۔۔۔ تمہارے تو ابھی اولاد نہیں ہوئی۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’بات کیا ہے۔۔۔ بتاؤ تو سہی۔‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ’’کچھ نہیں۔۔۔ جن لوگوں کے ستاروں کی پوزیشن ایسی ہوتی ہے ان کی پہلی اولاد لڑکا ہوتی ہے۔۔۔ مگر وہ زندہ نہیں رہتی۔‘‘
اشوک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میرا لڑکا ایک سال کا ہو کر مر گیا تھا۔
اشوک نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس کا پہلابچہ جو کہ لڑکا تھا، مردہ پیدا ہوا تھا۔اس نے مجھ سے کہا،تمہارے اور میرے ستاروں کی پوزیشن قریب قریب ایک جیسی ہے۔ اور یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ جن لوگوں کے ستاروں کی پوزیشن ایسی ہو، ان کے ہاں پہلی اولاد لڑکا نہ ہو اور وہ نہ مرے۔
اشوک کو علم نجوم کی صحت پر پورا پورا یقین ہے بشرطیکہ حساب درست ہو۔ وہ کہا کرتا ہے، ’’جس طرح ایک پائی کی کمی بیشی حساب میں بہت بڑی گڑ بڑ پیدا کردیتی ہے۔ اس طرح ستاروں کے حساب میں معمولی سی غلطی ہمیں کہیں کی کہیں لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وثوق کے ساتھ کوئی نتیجہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے ہم سے سہو ہو گیا ہو۔‘‘
ریس کے گھوڑوں کے ٹپ حاصل کرنے میں بھی عام طورپر اشوک اسی علم سے مدد لیتا ہے۔ گھنٹوں باتھ روم میں بیٹھا حساب لگاتا رہتا ہے۔ مگر پوری ریس میں سو روپے سے زیادہ اس نے کبھی نہیں کھیلا۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ وہ ہمیشہ جیتا ہے سو کے ایک سو دس ہوگیے۔ سو کے سو ہی رہے، مگر ایسا کبھی نہ ہوا کہ اس کے سو میں سے ایک پائی کم ہوئی ہو۔۔۔ وہ ریس جیتنے کے لیے نہیں محض تفریح کے لئے کھیلتا ہے۔ اس کی حسین و جمیل بیوی شوبھا تین بچوں کی ماں ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ممبرز انکلوژیر میں داخل ہوتے ہی وہ ایک کونے میں الگ تھلگ بیٹھ جاتا ہے۔ ریس شروع ہونے سے چند منٹ پہلے اپنی بیوی کو روپے دیتا ہے کہ فلاں فلاں نمبر کے ٹکٹ لے آؤ۔ جب ریس ختم ہوتی ہے تو اس کی بیوی ہی کھڑکی پرجا کر جیتنے والے ٹکٹوں کے روپے وصول کرتی ہے۔
شوبھا گھریلو عورت ہے۔ تعلیم واجبی ہے۔ اشوک کہا کرتا ہے کہ ان پڑھ ہے مگر صرف ازارہِ مذاق۔ اس کی ازدواجی زندگی بہت کامیاب ہے۔ شوبھا اتنی دولت ہونے کے باوجود گھر کے کام کاج میں مشغول رہتی ہے۔ ٹھیٹھ بنگالیوں کی طرح سوتی دھوتی پہنے اور اس کے پلو کے ایک کونے میں چابیوں کا یہ بڑا گچھا اڑ سے وہ مجھے ہمیشہ اپنے گھر میں مصروفِ کار نظر آئی۔ شام کو جب کبھی وسکی کا ایک دور چلتا تو گزگ کی چیزیں شوبھا اپنے ہاتھ سے تیار کرتی تھی۔ کبھی نمکین پارے کبھی بھنی ہوئی دال کبھی آلوؤں کے قتلے۔
میں ذرا زیادہ پینے کا عادی تھا،اس لئے شوبھا اشوک سے کہتی تھی، ’’دیکھو گانگولی! مسٹر منٹو کو زیادتی مت دینا۔ مسز منٹو ہم کو بولیں گی۔‘‘
مسز منٹو اورمسز گانگولی دونوں سہیلیاں تھیں۔ ان سے ہم دونوں بہت کام نکالتے تھے۔ جنگ کے باعث بڑے اچھے سگریٹ قریب قریب ناپید تھے۔ جتنے بھی باہر سے آتے تھے، سب کے سب بلیک مارکیٹ میں چلے جاتے تھے۔ یوں تو ہم عام طور پر اس بلیک مارکیٹ ہی سے اپنے لیے سگریٹ حاصل کرتے تھے مگر جب کسی وسیلے صحیح قیمت پر کوئی حیز مل جاتی تو ہم عجیب و غریب مسرت محسوس کرتے۔
مسز گانگولی جب شوپنگ کرنے نکلتی تو میری بیوی صفیہ کو کبھی کبھی اپنے ساتھ لے جاتی۔ قریب قریب ہر بڑے دکاندار کو معلوم تھا کہ مسز گانگولی مشہور ایکٹر اشوک کمار کی بیوی ہے۔ چنانچہ اس کے طلب کرنے پر بلیک مارکیٹ کی تاریک تہوں میں چھپائی ہوئی چیزیں باہر نکل آتی تھیں۔ یوں بھی بمبے کے مرد عورتوں کے معاملے میں کافی نرم دل واقع ہوئے ہیں۔بنک سے روپیہ نکلوانا ہو، کوئی رجسٹری کرانا ہو، سینما یا ریل گاڑی کے ٹکٹ لینا ہوں، مرد پڑا ڈیڑھ گھنٹہ سوکھتا رہےگا، لیکن اس کے مقابلے میں عورت کو ایک منٹ بھی انتظار کرنا نہیں پڑے گا۔
اشوک نے اپنی شہرت اور ہر دل عزیزی سے شاید ہی فائدہ اٹھایا۔ مگر دوسرے بعض اوقات اس کے علم کے بغیر اس کے ذریعے سے اپنا الو سیدھا کرلیتے تھے۔ راجہ مہدی علی خاں نے ایک دفعہ بڑے ہی دلچسپ طریقے سے اپنا الو سیدھا کیا۔
راجہ فلمستان میں ملازم تھا۔ میں فلمستان چھوڑ کر ولی صاحب کے لیےایک کہانی لکھ رہا تھا۔ ایک روز مجھے ٹیلیفون پر اشوک کے سیکرٹری نے بتایا کہ راجہ مہدی علی خاں بیمار ہیں۔ میں وہاں پہنچا تودیکھا کہ جناب کی بہت بری حالت ہے۔ گلا اس قدر خراب ہے کہ آواز ہی نہیں نکلتی۔ نقاہت کا یہ عالم ہے کہ سہارا لے کر بھی اٹھا نہیں جاتا، اور آپ نمکین پانی کے غراروں اور اورینٹل جام کی مالش سے اپنا مرض دورکرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔
مجھے شبہ سا ہوا کہیں ڈپتھیر یا نہ ہو، چنانچہ میں نے انہیں فوراً موٹر میں لادا اور اشوک کو ٹیلیفون کیا۔ اس نے مجھے اپنے ایک واقف ڈاکٹر کا نام بتایا کہ وہاں لے جاؤ۔ میں راجہ صاحب کووہاں لے گیا۔ تشخیص کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی وہی موذی مرض ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مشورے کے مطابق میں نے فوراً ہی متعدی امراض کے ہسپتال میں ان کو داخل کرا دیا۔ ٹیکے وغیرہ دیےگیے۔۔ دوسرے روز صبح میں نے اشوک کو ٹیلیفون پر راجہ کے مرض کی نوعیت بتائی۔ جب اس نے کوئی تشویش ظاہر نہ کی تو مجھے غصہ آگیاکہ تم کیسے انسان ہو۔ ایک آدمی ایسے خوفناک مرض میں مبتلا ہے۔ بیچارے کا یہاں کوئی پرسانِ حال بھی نہیں اور تم کوئی دلچسپی ہی نہیں لے رہے۔
اشوک نے جواباً صرف اس قدرکہا، ’’آج شام کو چلیں گے اس کے پاس۔‘‘
ٹیلیفون بند کرکے میں ہسپتال پہنچا اور دیکھا کہ راجہ کی حالت پہلے کی نسبت کسی قدر بہتر ہے۔ ڈاکٹر نے جو ٹیکے کہے تھے وہ میں لے آیا تھا۔ یہ اس کے حوالے کرکے اور دم دلاسہ دے کر میں اپنے کام پر چلا گیا۔ شام کو اشوک نے مجھے ولی کے دفتر میں پکڑ لیا۔ میں ناراض تھا مگر اس نے مجھے منا لیا۔ موٹر میں ہسپتال پہنچے۔ اشوک نے راجہ سے معذرت طلب کی کہ وہ بےحد مصروف تھا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد اشوک مجھے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
دوسرے روز ہسپتال پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں راجہ،راجہ بنا بیٹھا ہے۔ بستر کی چادر اجلی،تکیے کا غلاف اجلا، سگریٹ کی ڈبیا، پان،سرہانے کی ونڈوسل پر پھولدان، ٹانگ پر ٹانگ رکھے، ہسپتال کا صاف ستھرا جوڑا پہنے بڑے عیاشانہ طور پر اخبار کا مطالعہ کررہا تھا۔ میں نے حیرت بھرے لہجہ میں اس سے پوچھا، ’’کیوں راجہ، یہ سب کیا؟‘‘
راجہ مسکرایا۔ اس کی یہ بڑی بڑی مونچھیں تھرائیں، ’’یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ ابھی اور دیکھنا۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’کیا؟‘‘
’’عیاشی کے سامان۔۔۔ کچھ روز اور میں یہاں رہا تو تم دیکھو گے کہ پاس والے کمرہ میں میری حرم سرائے ہوگی۔ خدا جیتا رکھے میرے اشوک کمار کو۔۔۔ بتاؤ وہ کیوں نہیں آیا۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد راجہ نے بتایا کہ وہ سب کچھ اشوک کا نور ظہور ہے۔۔۔ ہسپتال والوں کو پتہ چل گیا کہ اشوک اس کی بیمار پرسی کے لئے آیا تھا۔ چنانچہ ہر چھوٹا بڑا راجہ کے پاس آیا۔ ہر ایک نے اس سے ایک ہی قسم کے متعدد سوال کیے۔
’’کیا اشوک واقعی اس کی بیمار پرسی کے لیے آیا تھا؟‘‘
’’اشوک سے اس کے کیا تعلقات ہیں؟‘‘
’’کیا وہ پھر آئے گا؟‘‘
’’کب اور کس وقت آئے گا؟‘‘
راجہ نے ان کو بتایا کہ اشوک اس کا بہت ہی گہرا دوست ہے۔ اس کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار ہے، وہ ہسپتال میں اس کے ساتھ ہی رہنے کو تیار تھا مگر ڈاکٹر نہ مانے۔ صبح شام آتا مگر کنٹریکٹ کچھ ایسے ہیں کہ مجبور ہے۔ آج شام کو ضرور آئے گا۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خیراتی ہسپتال کے خیراتی کمرے میں اس کو ہر قسم کی سہولت میسر تھی۔
وقت ختم ہونے پر میں جانے ہی والا تھا کہ میڈیکل اسٹوڈنٹ لڑکیوں کا ایک گروہ کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ راجہ مسکرایا۔
’’خواجہ۔۔۔ حرم سرائے کے لئے یہ ساتھ والا کمرہ میرا خیال ہے چھوٹا رہے گا۔‘‘
اشوک بہت اچھا ایکٹر ہے۔ مگروہ صرف اپنی جان پہچان کے بے تکلف لوگوں کے ساتھ مل کر ہی پوری دلجمعی سے کام کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان فلموں میں اس کا کام اطمینان بخش نہیں ہے جو اس کی ٹیم نے نہیں بنائے۔ اپنے لوگوں میں ہو تو وہ کھل کر کام کرتا ہے۔ ٹیکنیشنوں کو مشورے دیتا ہے، ان کے مشورے قبول کرتا ہے۔ اپنی ایکٹنگ کے متعلق لوگوں سے استفسار کرتا ہے۔ ایک سین کو مختلف شکلوں میں ادا کرکے خود پرکھتا ہے اور دوسروں کی رائے لیتا ہے۔ اس فضا سے اگر کوئی اسے باہر لے جاتا ہے تو وہ بہت الجھن محسوس کرتا ہے۔
تعلیم یافتہ ہونے اور بمبئی ٹاکیز جیسے باذوق فلمی ادارے کے ساتھ کئی برسوں تک منسلک رہنے کی وجہ سے اشوک کو فلمی صنعت کے قریب قریب ہر شعبے سے واقفیت حاصل ہوگئی تھی۔ وہ کیمرے کی باریکیاں جانتا تھا، لیبارٹری کے تمام پیچیدہ مسائل سمجھتا تھا، ایڈیٹنگ کا عملی تجربہ رکھتا تھا اور ڈائرکشن کی گہرائیوں کا بھی مطالعہ کرچکا تھا۔ چنانچہ فلمستان میں جب اس سے رائے بہادر چونی لال نے ایک فلم پروڈیوس کرنے کے لئے کہا تو وہ فوراً تیار ہوگیا۔
ان دنوں فلمستان کا پروپیگنڈا فلم ’’شکاری‘‘ مکمل ہو چکا تھا۔ اس لیے میں کئی مہینوں کی لگاتار محنت کے بعد گھر میں چھٹیوں کے مزے اڑا رہا تھا۔ ایک دن ساوک واچا آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہنے لگے۔ سعادت۔۔۔ ایک کہانی لکھ دو گنگولی کے لیے۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ ساوک کا کیا مطلب ہے۔ میں فلمستان کا ملازم تھا اور میرا کام ہی کہانیاں لکھنا تھا۔ گنگولی کے لیے کہانی لکھوانے کے لیےساوک کی سفارش کی کیا ضرورت تھی۔ مجھ سے وہاں فلمستان کا کوئی ذمہ دار رکن بھی کہتا، میں کہانی لکھنا شروع کردیتا، لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اشوک چونکہ فلم خود پروڈیوس کرنا چاہتا ہے، اس لئے اس کی خواہش ہے کہ میں اس کی خواہش کے مطابق کوئی نہایت ہی اچھوتی کہانی لکھوں۔ وہ خود میرے پاس اس لئے نہ آیا کہ وہ دوسروں سے کئی کہانیاں سن چکا تھا۔
بہر حال ساوک کے ساتھ وقت مقرر ہوا اور ہم سب ساوک ہی کے صاف ستھرے فلیٹ میں جمع ہوئے۔ اشوک کو کیسی کہانی چاہیے تھی۔ یہ خود اس کو معلوم نہیں تھا، ’’بس منٹو ایسی کہانی ہو کہ مزا آجائے۔۔۔ اتنا خیال رکھو کہ یہ میرا پہلا فلم ہوگا۔‘‘
ہم سب نے مل کر گھنٹوں مغز پاشی کی مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ان دنوں آغا خاں کی ڈائمنڈ جوبلی ہونے والی تھی جس کے لئے ساوک کے فلیٹ کی پرلی طرف برے بورن اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑا پنڈال تعمیر کیا جارہا تھا۔ میں نے انسپی ریشن حاصل کرنے کی کوشش کی۔۔۔ ساوک کے سٹنگ روم میں صنم تراشی کا ایک نہایت ہی عمدہ نمونہ تھا۔ اس کو بھی دماغ میں گھمایا پھرایا۔ اپنے پرانے کارناموں پر نظر ڈالی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
دن بھر کی سعی ناکام کی کوفت دور کرنے کے لیے شام کو باہر ٹیرس پر برانڈی کا دور شروع ہوا۔ شراب کے انتخاب میں ساوک واچا بہت ہی عمدہ ذوق کا مالک ہے۔ برانڈی چنانچہ ذائقہ اور قوام کی بہت ہی اچھی تھی۔ حلق سے اترتے ہی لطف آگیا۔
سامنے چرچ گیٹ اسٹیشن تھا۔ نیچے بازارمیں خوب چہل چہل تھی۔ ادھر بازار کے اختتام پر سمندر اوندھے منہ لیٹا سستا رہا تھا۔ بڑی بڑی قیمتی کاریں سڑک کی چمکیلی سطح پر تیر رہی تھیں۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک ہانپتا ہوا سڑکیں کوٹنے والا انجن نمودار ہوا۔۔۔ میں نے ایسے ہی سوچا۔۔۔ خدا معلوم کہاں سے یہ خیال میرے دماغ میں آن ٹپکا کہ اگر اس ٹیرس سے کوئی خوبصورت لڑکی ایک رقعہ گرائے اس نیت سے کہ وہ جس کے ہاتھ لگے گا وہ اس سے شادی کرے گی تو کیا ہو۔۔۔؟ ہو سکتا ہے کہ رقعہ کسی پیکارڈ موٹر میں جا گرے۔۔۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اڑتا اڑتا سڑکیں کوٹنے والے انجن کے ڈرائیور کے پاس جا پہنچے۔۔۔ ہو سکنے کا یہ تسلسل کتنا دراز تھا اور کتنا دلچسپ!
میں نے اس کا ذکر اشوک اور ساوک سے کیا۔ ان کو مزا آگیا۔ اور مزا لینے کی خاطر ہم نے برانڈی کا ایک اور دور چلایا اور بے لگام خیال آرائیاں شروع کردیں۔ جب محفل برخواست ہوئی تو طے پایا کہ کہانی کی بنیادیں اسی خیال پر استوار کی جائیں۔
کہانی تیار ہوگئی مگر اس کی شکل کچھ اور ہی تھی۔ حسینہ کا لکھا ہوا رقعہ رہا نہ سڑکیں کوٹنے والا انجن۔ پہلے پہلے خیال تھا کہ ٹریجڈی ہونی چاہیے مگر اشوک چاہتا تھا کہ کامیڈی ہو اور وہ بھی بہت ہی تیز رفتار، چنانچہ دماغ کی ساری قوتیں اسی طرف صرف ہونے لگیں۔ کہانی مکمل ہوگئی تو اشوک کو پسند آئی، شوٹنگ شروع ہوگئی۔ اب فلم کا ایک ایک فریم اشوک کی ہدایت کے ماتحت تیار ہونے لگا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ’’آٹھ دن‘‘ تمام وکمال اشوک کی ڈائرکشن کا نتیجہ تھی کہ پردے پر ڈائریکٹر کا نام ڈی، این پائی تھا، جس نے اس فلم کا ایک انچ بھی ڈائرکٹ نہیں کیا تھا۔ بمبئی ٹاکیز میں فلم ڈائرکٹر کو بہت کم اہمیت دی جاتی تھی۔ سب مل کر کام کرتے تھے۔ جب فلم نمائش کے لئے پیش ہوتا تو ایک کارکن کا نام بطور ڈائرکٹر کے پیش کردیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ کار فلمستان میں بھی رائج تھا۔ ڈی، این، پائی فلم ایڈیٹر تھا اور اپنے کام میں بہت ہوشیار۔ چنانچہ متفقہ طور پریہی فیصلہ ہوا تھا کہ بحیثیت ڈائریکٹر کے اس کا نام فلم کے کریڈٹ ٹائٹلز میں پیش کیا جائے۔
اشوک جتنا اچھا کردار کار ہے اتنا ہی اچھا ہدایت کار بھی ہے۔ اس کا علم مجھے ’’آٹھ دن‘‘ کی شوٹنگ کے دوران میں ہوا۔ معمولی سے معمولی منظر پر بھی وہ بہت محنت کرتا تھا۔ شوٹنگ سے ایک روز پہلے وہ مجھ سے نظرثانی کیا ہوا سین لیتا اور غسل خانے میں بیٹھ کر گھنٹوں اس کی نوک پلک پر غور کرتا رہتا۔۔۔ یہ عجیب بات ہے کہ باتھ روم کے علاوہ اور کسی جگہ وہ پوری توجہ سے فکر طلب امور پر غور نہیں کرسکتا۔
اس فلم میں چار نیے آدمی بطور ایکٹر پیش ہوئے۔ راجہ مہدی علی خاں، اوپندرناتھ اشک، محسن عبداللہ (پراسرار نینا کے سابق شوہر) اور راقم الحروف۔۔۔ طے یہ ہوا کہ ایس مکر جی کو ایک رول دیا جائے گا۔ مگر وقت آنے پر وہ اپنی بات سے پھر گئے۔ اس لئے کہ ان کے فلم ’’چل چل رے نوجوان‘‘ میں کیمرے کی دہشت کے باعث میں نے کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مکرجی کو بہانہ ہاتھ آیا۔ اصل میں وہ خود کیمرے سے خوف زدہ تھے۔
ان کا رول ایک ’’شل شوکڈ‘‘ فوجی کا تھا۔ اس کے لیے لباس وغیرہ سب تیار تھے۔ جب مکر جی نے انکار کیا تو اشوک بہت سٹپٹایا کہ ان کی جگہ اور کسے منتخب کرے۔ کئی دن شوٹنگ بند رہی۔ رائے بہادر چونی لال جب لال پیلے ہونے لگے تو اشوک میرے پاس آیا۔ میں چند مناظر دوبارہ لکھ رہا تھا۔ اس نے میز پر سے میرے کاغذ اٹھا کر ایک طرف رکھے اور کہا، ’’چلو منٹو۔‘‘
میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے نئے گیت کی دھن سنوانے لے جارہا ہے۔ مگروہ مجھے سیٹ پر لے گیاہے اور کہنے لگا، ’’پاگل کا پارٹ تم کرو گے۔‘‘ مجھے معلوم تھا کہ مکر جی انکار کرچکا ہے۔ اور اشوک کو اس خاص کردار کے لیے کوئی آدمی نہیں مل رہا، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ مجھ سے کہے گا کہ میں یہ رول ادا کروں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’پاگل ہوئے ہو؟‘‘ اشوک سنجیدہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ نہیں منٹو تمہیں یہ رول لینا ہی پڑے گا۔ راجہ مہدی علی خاں اوراوپندرناتھ اشک نے بھی اصرار کیا۔ راجہ نے کہا، ’’تم نے مجھ کو اشوک کا بہنوئی بنا دیا۔ حالانکہ میں شریف آدمی ہرگز اس کے لئے تیار نہ تھا، کیونکہ میں اشوک کی عزت کرتا ہوں۔ تم پاگل بن جاؤ گے تو کون سی آفت آ جائے گی۔‘‘ اس پر مذاق شروع ہوگیا اور مذاق مذاق میں سعادت حسن منٹو، پاگل فلائٹ لفٹیننٹ کر پارام بن گیا۔۔۔ کیمرے کے سامنے میری جو حالت ہوئی اس کو اللہ بہتر جانتا ہے۔
فلم تیار ہوکر نمائش کے لیے پیش ہوا تو کامیاب ثابت ہوا۔ ناقدین نے اسے بہترین کامیڈی قرار دیا۔۔۔ میں اور اشوک خاص طور پر بہت ہی مسرور تھے اور ہمارا ارادہ تھا کہ اب کی کوئی بالکل نئے ٹائپ کا فلم بنائیں گے،مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔
ساوک واچا ’’آٹھ دن‘‘ کی شوٹنگ کے آغاز ہی میں اپنی والدہ کے علاج کے سلسلہ میں لندن چلا گیا تھا۔ وہ جب واپس آیا تو فلمی صنعت میں ایک انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ کئی اداروں کے دیوالے پٹ گئے تھے۔ بمبئی ٹاکیز کی نہایت ابتر حالت تھی۔ ہمانسورائے آنجہانی کے بعد دیوکا رانی چند برسوں کی عدت کے بعد روس کے ایک جلا وطن نواب کے آرٹسٹ لڑکے روک سے رشتہ ازدواج قائم کرکے فلمی دنیا تیاگ چکی تھی۔ دیوکارانی کے بعد بمبئی ٹاکیز پر کئی بیرونی حملہ آوروں نے قبضہ کیا مگر اس کی حالت نہ سدھار سکے۔ آخر ساوک واچا لندن سے واپس آئے اور جرات رندانہ سے کام لے کر بمبئی ٹاکیز کی عنانِ حکومت اشوک کی مدد سے اپنے ہاتھ میں لے لی۔
اشوک کو فلمستان چھوڑنا پڑا۔ اس دوران میں لاہور سے مسٹر موتی بی گڑوانی نے تار کے ذریعے سے ایک ہزار روپیہ ماہوار کی آفر دی۔ میں چلا گیا ہوتا مگر مجھے ساوک کا انتظار تھا۔ جب اشوک اور وہ دونوں بمبئی ٹاکیز میں اکٹھے ہوئے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے لئے انگریز رف کاپیوں پر نقشے بنا رہا تھا۔ بھس میں چنگی ڈال یہ بی جمالو الگ کھڑی ہو کر نمائش دیکھنے کے لیےجگہ بنا رہی تھی۔
میں نے جب بمبئی ٹاکیز میں قدم رکھا تو ہندو مسلم فسادات شروع تھے۔ جس طرح کرکٹ کے میچوں میں وکٹیں اڑتی ہیں، باؤنڈریاں لگتی ہیں، اس طرح ان فسادوں میں لوگوں کے سر اڑتے تھے اور بڑی بڑی آگیں لگتی تھیں۔
ساوک واچا نے بمبئی ٹاکیز کی ابتر حالت کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد جب انتظام سنبھالا تو اسے بہت سی مشکلیں درپیش آئیں۔ غیر ضروری عنصر کو جو مذہب کے لحاظ سے ہندو تھا، نکال باہر کیا تو کافی گڑبڑ ہوئی۔ مگر جب اس کی جگہ پر کی گئی، تو مجھے محسوس ہوا کہ کلیدی آسامیاں سب مسلمانوں کے پاس ہیں۔ میں تھا، شاہد لطیف تھا، عصمت چغتائی تھی، کمال امروہی تھا، حسرت لکھنوی تھا، نذیر اجمیری، ناظم پانی پتی اور میوزک ڈائرکٹر غلام حیدر تھے۔ یہ سب جمع ہوئے تو ہندو و کارکنوں میں ساوک واچا اور اشوک کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوگیے۔ میں نے اشوک سے اس کا ذکر کیا تو ہنسنے لگا، ’’میں واچا سے کہہ دوں گا کہ وہ ایک ڈانٹ پلادے۔‘‘
ڈانٹ پلائی گئی تو اس کا اثر الٹا ہوا۔ واچا کو گمنام خط موصول ہونے لگے کہ اگر اس نے اپنے اسٹوڈیو سے مسلمانوں کو باہر نہ نکالا تو اس کو آگ لگا دی جائے گی۔ یہ خط واچا پڑھتا تو آگ بگولا ہو جاتا، ’’سالے مجھ سے کہتے ہیں کہ میں غلطی پر ہوں۔۔۔ میں غلطی پر ہوں۔۔۔ میں غلطی پر ہوں تو ان کے باوا کا کیا جاتا ہے۔۔۔ آگ لگائیں تو میں ان سب کو اس میں جھونک دوں گا۔‘‘
اشوک کا دل و دماغ فرقہ وارانہ تعصب سے بالکل پاک ہے۔ وہ کبھی ان خطوط پر سوچ ہی نہیں سکتا تھا جن پر آگ لگانے کی دھمکیاں دینے والے سوچتے تھے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ کہتا، ’’منٹو یہ سب دیوانگی ہے۔۔۔ آہستہ آہستہ دور ہو جائے گی۔‘‘ مگر آہستہ آہستہ دورہونے کے بجائے یہ دیوانگی بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔۔۔ اور میں خود کو مجرم محسوس کررہا تھا، اس لیے کہ اشوک اور واچا میرے دوست تھے، وہ مجھ سے مشورے لیتے تھے، اس لیے کہ ان کو میرے خلوص پر بھروسہ تھا لیکن میرا یہ خلوص میرے اندر سکڑ رہا تھا۔۔۔ میں سوچتا تھا، اگر بمبے ٹاکیزکو کچھ ہوگیا تو میں اشوک اور واچا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔
فسادات زوروں پر تھے۔ ایک دن میں اور اشوک بمبئی ٹاکیز سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں اس کے گھر دیر تک بیٹھے رہے۔ شام کو اس نے کہا۔ چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔۔۔ شورٹ کٹ کی خاطر وہ موٹر کو ایک خالص اسلامی محلے میں لے گیا۔۔۔ سامنے سے ایک برات آرہی تھی۔ جب میں نے بینڈ کی آواز سنی، تومیرے اوسان خطا ہوگئے۔ ایک دم اشوک کا ہاتھ پکڑ کر میں چلایا، ’’دادا منی۔یہ تم کدھر آنکلے۔‘‘ اشوک میرا مطلب سمجھ گیا۔ مسکرا کر اس نے کہا، ’’کوئی فکر نہ کرو۔‘‘
میں کیونکر فکر نہ کرتا۔ موٹر ایسے اسلامی محلے میں تھی جہاں کسی ہندو کا گزر ہی نہیں ہو سکتا تھا، اور اشوک کو کون نہیں پہہچا نتا تھا، کون نہیں جانتا تھا کہ وہ ہندو ہے۔۔۔ ایک بہت بڑا ہندو جس کا قتل معرکہ خیز ہوتا۔۔۔ مجھے عربی زبان میں کوئی دعا یاد نہیں تھی۔ قرآن کی کوئی موزوں و مناسب آیت بھی نہیں آتی تھی۔ دل ہی میں اپنے اوپر لعنتیں بھیج رہا تھا اور دھڑکتے ہوئے دل سے اپنی زبان میں بے جوڑ سی دعا مانگ رہا تھا کہ اے خدا مجھے سرخ رو رکھیو۔۔۔ ایسا نہ ہو کوئی مسلمان اشوک کو مار دے اور میں ساری عمر اس کا خون اپنی گردن پر محسوس کرتا رہوں۔ یہ گردن قوم کی نہیں میری اپنی گردن تھی۔ مگر یہ ایسی ذلیل حرکت کے لیےدوسری قوم کے سامنے ندامت کی وجہ سے جھکنا نہیں چاہتی۔
جب موٹر برات کے جلوس کے پاس پہنچی تو لوگوں نے چلانا شروع کردیا، ’’اشوک کمار۔۔۔ اشوک کمار۔۔۔‘‘ میں بالکل یخ ہوگیا۔ اشوک اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے خاموش تھا۔ میں خوف و ہراس کی یخ بستگی سے نکل کر ہجوم سے یہ کہنے والا تھا کہ دیکھو ہوش کرو۔ میں مسلمان ہوں۔ یہ مجھے میرے گھر چھوڑنے جارہا ہے۔۔۔ کہ دو نوجوانوں نے آگے بڑھ کر بڑے آرام سے کہا، ’’اشوک بھائی آگے راستہ نہیں ملے گا۔ ادھر باجو کی گلی سے چلے جاؤ۔‘‘
اشوک بھائی؟ اشوک ان کا بھائی تھا۔ اور میں کون تھا۔۔۔؟میں نے دفعتاً اپنے لباس کی طرف دیکھا جو کھادی کا تھا۔۔۔ معلوم نہیں انہوں نے مجھے کیا سمجھا ہوگا۔ مگر ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اشوک کی موجودگی میں مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔موٹر جب اس اسلامی محلے سے نکلی تو میری جان میں جان آئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا تو اشوک ہنسا، ’’تم خواہ مخواہ گھبرا گئے۔۔۔ آرٹسٹوں کو یہ لوگ کچھ نہیں کہا کرتے۔‘‘
چند روز بعد بمبے ٹاکیز میں نذیر اجمیری کی کہانی (جو ’’مجبور‘‘ کے نام سے فلم بند ہوئی) پر میں نے جب کڑی نکتہ چینی اور اس میں کچھ تبدیلیاں کرنا چاہیں، تو نذیر اجمیری نے اشوک اور واچا سے کہا،’’منٹو کو آپ ایسے مباحثوں کے دوران میں نہ بٹھایا کریں۔ وہ چونکہ خود افسانہ نویس ہے اس لیے متعصب ہے۔‘‘
میں نے بہت غور کیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخر میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’منٹو بھائی۔۔۔ آگے راستہ نہیں ملے گا۔۔۔ موٹر روک لو۔۔۔ ادھر باجو کی گلی سے چلے جاؤ۔‘‘
اور میں چپ چاپ باجو کی گلی سے پاکستان چلا آیا جہاں میرے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر مقدمہ چلایا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.