Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کے کے

MORE BYسعادت حسن منٹو

    یہ اس مشہور ایکٹریس کا نام ہے جو ہندوستان کے متعدد فلموں میں آچکی ہے اور آپ نے یقیناً اسے سیمیں پردے پر کئی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ میں جب بھی اس کا نام کسی فلم کے اشتہار میں دیکھتا ہوں تو میرے تصور میں اس کی شکل بعد میں، لیکن سب سے پہلے اس کی ناک ابھرتی ہے۔۔۔ تیکھی، بہت تیکھی ناک اور پھر مجھے بمبئی ٹاکیز کا وہ دلچسپ واقعہ یاد آجاتا ہے جو میں اب بیان کرنے والا ہوں۔

    بٹوارے پر جب پنجاب میں فسادات شروع ہوئے تو کلدیپ کور جو لاہور میں تھی، اور وہاں فلموں میں کام کررہی تھی،ہجرت کرکے بمبئی چلی گئی۔ اس کے ساتھ اس کا داشتہ پران بھی تھا جو پنچولی کے کئی فلموں میں کام کرکے شہرت حاصل کرچکا تھا۔اب پران کا ذکر آیا ہے تو اس کے متعلق بھی چند تعارفی سطور لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پران اچھا خاصا خوش شکل مرد ہے۔ لاہور میں اس کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ بڑا ہی خوش پوش تھا۔ بہت ٹھاٹ سے رہتا تھا، اس کا ٹانگہ گھوڑا لاہور کے رئیسی ٹانگوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا۔

    مجھے معلوم نہیں، پران سے کلدیپ کور کی دوستی کب اور کس طرح ہوئی اس لیے کہ میں لاہور میں نہیں تھا لیکن فلمی دنیا میں دوستیاں عجائب میں داخل نہیں۔ وہاں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران میں ایکٹرسوں کا دوستانہ بیک وقت کئی مردوں سے ہوسکتا ہے جو اس فلم سے وابستہ ہوں۔جن دنوں پران اور کلدیپ کور کا معاشقہ چل رہا تھا۔ ان دنوں شیام مرحوم بھی وہیں تھا۔ پونہ اور بمبئی میں قسمت آزمائی کرنے کے بعد وہ لاہور چلا گیا تھا جس سے اسے والہانہ محبت تھی۔ عشق پیشہ انسان تھا اور کلدیپ بھی اس میدان میں اس سے پیچھے نہیں تھی۔۔۔ دونوں کا تصادم ہوا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے کہ ایک اور لڑکی شیام کی زندگی میں داخل ہوگئی۔

    اس کا نام ممتاز تھا جو تاجی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ زیب قریشی، ایم اے کی چھوٹی بہن تھی۔ کلدیپ کور کو شیام کی یہ کلابازی پسند نہ آئی چنانچہ وہ اس سے ناراض ہوگئی اور ہمیشہ ناراض رہی۔ میں یہاں آپ کو یہ بتادوں کہ کلدیپ بڑی ہٹیلی عورت ہے جو بات اس کے دماغ میں سما جائے اس پر اڑی رہتی ہے۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں۔ یہ واقعہ بمبئی کا ہے۔

    ہم تینوں بمبئی ٹاکیز میں تھے اور شام کو برقی ٹرین سے اپنے گھر جارہے تھے۔ فرسٹ کلاس ڈبہ اس دن قریباً قریباً خالی تھا۔ہم تینوں کے سوا اس میں اور کوئی مسافر نہ تھا۔شیام طبعاً بڑا بلند بانگ اور منہ پھٹ تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کمپارٹمنٹ میں کوئی غیر نہیں تو اس نے کلدیپ کور سے چھیڑ خانی شروع کردی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ رشتہ جو لاہور میں قائم ہوتے ہوتے رہ گیا تھا، اب یہاں بمبئی میں قائم ہو جائے کیونکہ تاجی سے اس کی کھٹ پٹ ہوگئی تھی۔ رمولا کلکتہ میں تھی اور نگار سلطانہ نغمہ نویس مدھوک کے پاس۔ وہ ان دنوں بقول اس کے ’’خالی ہاتھ‘‘ تھا۔چنانچہ اس نے کلدیپ کور سے کہا کے کے تم مجھ سے دور دور کیوں رہتی ہو، ادھر آؤ میری جان میرے پاس بیٹھو۔ کلدیپ کی ناک اور تیکھی ہوگئی۔

    ’’شیام صاحب! آپ مجھ پر ڈورے نہ ڈالیں۔‘‘

    میں ان کی گفتگو، جو مجھے مکمل طور پریاد ہے، یہاں نقل کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ وہ بہت بے باک تھی۔ ویسے اس کی روح اپنے لفظوں میں بیان کیے دیتا ہوں۔ شیام کبھی سنجیدگی سے بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے ہر لفظ میں ایک قہقہہ ہوتا تھا۔ اس نے کلدیپ سے اسی مخصوص انداز میں کہا، ’’جان من! اس الو کے پٹھے پر ان کو چھوڑو اور میرے ساتھ ناطہ جوڑو۔ وہ میرا دوست ہے لیکن یہ معاملہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے۔‘‘

    کلدیپ کور کی آنکھیں اس کی ناک کی طرح بڑی اور تیکھی ہیں۔ اس کا لب دہان بھی بڑا تیکھا ہے۔ اس کے چہرے کا ہر خدوخال تیکھا ہے، جب وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپکا کر بات کرتی ہے تو آدمی بوکھلا جاتا ہے کہ یہ کیا مصیبت ہے۔

    اس نے تیز تیز نگاہوں سے شیام کی طرف دیکھا اور اس سے زیادہ تیز لہجے میں اس سے کہا، ’’منہ دھو کر رکھیے شیام صاحب‘‘ شیام پرعورتوں کی تیز گفتاری کا بھلا کیا اثر ہوتا، اس نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا، ’’کے کے میری جان! تم لاہور میں مجھ پر مرتی تھیں، یاد نہیں تمہیں۔‘‘

    اب کلدیپ کور نے قہقہہ لگایا جس میں نسوانی طنز بھرا تھا، ’’آپ کوو ہم ہوگیا تھا۔‘‘

    شیام نے کہا، ’’تم غلط کہتی ہو، تم مجھ پر مرتی ہو۔‘‘

    میں نے کلدیپ کی طرف دیکھا اور مجھے محسوس ہوا کہ اس کے جسم پر سپردگی کی خواہش ہے مگر اس کا ہٹیلا دماغ اس کی اس خواہش کو رد کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی تیکھی پلکیں پھڑپھڑا کر کہا، ’’مرتی تھی لیکن اب میں نہیں مروں گی۔‘‘

    شیام نے اسی لاابالیانہ انداز میں کہا، ’’اب نہیں مرو گی تو کل مرو گی۔ مرنا بہر حال تمہیں مجھ پر ہی ہے۔‘‘

    کلدیپ کور بھنا گئی، ’’شیام تم مجھ سے آج آخری بار سن لو کہ تمہارا میرا کوئی سلسلہ نہیں ہوسکتا۔ تم اتراتے ہو۔ ہوسکتا ہے لاہور میں کبھی میری طبیعت تم پر آئی ہو لیکن جب تم نے بے رخی برتی تو میں کیوں تمہیں منہ لگاؤں۔ اب اس قصہ کو ختم کرو۔‘‘

    قصہ ختم ہوگیا۔ صرف وقتی طور پر کیونکہ شیام زیادہ بحث کا عادی نہیں تھا، کلدیپ کور اٹاری کے ایک مشہورو معروف اور مالدار سکھ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، اس کا ایک فرد لاہور کی ایک مشہور مسلمان عورت سے منسلک ہے جس کو اس نے لاکھوں روپے دیے اور سنا ہے کہ اب بھی دیتا ہے۔یہ مسلمان عورت کسی زمانے میں یقیناً خوبصورت ہوگی مگر اب موٹی اوربھدی ہوگئی ہے مگر وہ اٹاری کے سکھ حضرات اب بھی باقاعدہ یہاں لاہور میں فلیٹی ہوٹل میں آتے ہیں اور اپنی مسلمان محبوبہ کے ساتھ چند روز گزار کرواپس چلے جاتے ہیں۔

    جب بٹوارہ ہوا تو کلدیپ کور کو اور پران کو افراتفری میں لاہور چھوڑنا پڑا۔ پران کی موٹر (جو غالباً کلدیپ کور کی ملکیت تھی) یہیں رہ گئی لیکن کلدیپ کور ایک باہمت عورت ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مردوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتی ہے۔ اس کے لیے وہ کچھ دیر کے بعد لاہور آئی اور فسادات کے دوران میں یہ موٹر خود چلا کربمبئی لے گئی۔

    جب میں نے موٹر دیکھی اور پران سے پوچھا کہ یہ کب خریدی گئی ہے تو اس نے مجھے سارا واقعہ سنایا کہ کے کے لاہور سے لے کر آئی ہے اور یہ کہ راستے میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، ایک صرف دہلی میں اسے چند روز ٹھہرنا پڑا کہ ایک گڑ بڑ ہوگئی تھی۔ یہ گڑ بڑ کیا تھی، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔

    جب وہ موٹر لے کر آئی تو اس نے سکھوں پر مسلمانوں کے مظالم بیان کیے اور اس انداز سے بیان کیے کہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ میز پر سے مکھن لگانے والی چھری اٹھائے گی اور میرے پیٹ میں گھونپ دے گی لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جذباتی ہو گئی تھی ورنہ مسلمانوں سے کوئی عداوت یا بغض نہیں۔ اصل میں اس کا کوئی مذہب نہیں، وہ صرف عورت ہے، ایک ایسی عورت جو جسمانی لحاظ سے بڑی پر خلوص ہے۔اس کی ناک بے حد تیکھی ہے۔ اس کی آنکھیں بہت تیز ہیں۔ اس کا لب دہان بہت باریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے چہرے پر ذرا سا چڑھاؤ بہت تیزوتند بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اور اس کی آواز بھی غیر معموی طورپر تند و طرارہے۔

    کلدیپ کور کی تیکھی ناک کا ذکر میں کئی بار کر چکا ہوں اس سلسلے میں آپ ایک لطیفہ سن لیجئے۔ فلمستان چھوڑ کر اپنے دوست اشوک کمار اور ساوک واچا کے ساتھ بمبئی ٹاکیز چلا گیا تھا، اس زمانے میں فسادات کا آغاز تھا۔ اسی دوران میں کلدیپ کور اور اس کا داشتہ پران ملازمت کے لیے وہاں آیا۔

    پران سے جب میری ملاقات شیام کے توسط سے ہوئی تو میری اس کی فوراً دوستی ہوگئی۔ بڑا بے ریا آدمی ہے۔ کلدیپ کور سے البتہ کچھ رسمی قسم کی ملاقات رہی۔

    ان دنوں تین فلم ہمارے اسٹوڈیو میں شروع ہونے والے تھے۔ چنانچہ جب کلدیپ کور نے مسٹر ساوک واچا سے ملاقات کی توانہوں نے جوزف واشنگ جرمن کیمرہ مین سے کہا کہ وہ اس کا کیمرہ ٹیسٹ لے تاکہ اطمینان ہو جائے۔واشنگ گورے رنگ اور ادھیڑ عمر کا موٹا سا آدمی ہے۔ اس کو ہمانسورائے مرحوم اپنے ساتھ جرمن سے لائے تھے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اسے دیو لالی میں نظر بند کردیا گیا۔ ایک عرصہ تک وہاں رہا جب جنگ ختم ہوئی تو اسے رہا کردیا گیا اور وہ پھر واپس بمبئی ٹاکیز میں آگیا۔ اس لیے کہ مسٹر واچا سے اس کے دوستانہ تعلقات تھے کیونکہ وہ عرصہ ہوا بمبئی ٹاکیز میں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ ان دنوں مسٹر واچا ساؤنڈ ریکارڈسٹ تھے۔

    واشنگ نے اسٹوڈیو میں روشنی کا انتظام کرایا اور میک اپ مین سے کہا کہ وہ کلدیپ کور کو تیار کرکے کیمرہ ٹیسٹ کے لیے لائے۔ وہ خود تیار تھا۔ کیمرہ نیا تھا۔ اس کو اس نے اچھی طرح دیکھا۔ روشنیاں درست کرائیں اور اپنا چُرٹ سلگائے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔کلدیپ کور آئی، میں نے اسے دیکھا، اس کی ناک پر میک اپ مین نے سرخی اور سفیدے کےکچھ ایسے خط لگائے تھے کہ وہ دس گنا اور تیکھی ہوگئی تھی۔ جب واشنگ نے اس کو دیکھا تو وہ گھبرا گیا کیوں کہ وہ سرتاپا ناک تھی۔

    کلدیپ کور بالکل بے خوف، بے جھجک کیمرے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ واشنگ نے اب اس کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا مگر محسوس کررہا تھا کہ اس کو بڑی الجھن ہورہی ہے،وہ اس کی ناک ایسے زاویے پر بٹھانے کی کوشش کررہا تھا کہ معیوب معلوم نہ ہو۔ بے چارہ اس کوشش میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔ آخر اس نے تھک ہارکرمجھ سے کہا کہ میں اب ایک کپ چائے پیوں گا۔ میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔ چنانچہ ہم دونوں کنٹین میں پہنچ گئے۔ وہاں اس نے اپنا پسینہ پونچھتے ہوئے مجھ سے کہا، ’’مسٹر منٹو! اس کی ناک بھی ایک آفت ہے ،کیمرے میں گھسی چلی آتی ہے۔ چہرہ بعد میں آتا ہے، ناک پہلے آتی ہے اب میں کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میری سمجھ میں خود کچھ نہیں آتا‘‘، میں نے کہا ’’تم جانو تمہارا کام جانے۔‘‘

    پھر اس نے ایک اور الجھن کا اظہار کیا لیکن وہ میرے کان میں، ’’مسٹر منٹو۔۔۔ اس کاوہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن میں اسے کیسے کہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر موٹے واشنگ نے اپنا پسینہ پھر پونچھا۔

    میں اس کا مطلب سمجھ گیا لیکن واشنگ نے پھر بھی مجھے وضاحت سے سب کچھ بتا دیا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں کے کے سے درخواست کروں وہ اس معاملے کو ٹھیک کرے کہ وہ بہت ضروری ہے، ناک کا وہ کوئی نہ کوئی زاویہ نکال لے گا مگر اس معاملے کے متعلق وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا کہ وہ یہ اس کا کام ہے۔ میں نے اس کی تشفی کی کہ میں سب ٹھیک کردوں گا کیونکہ اس نے مجھے اس معاملے کی درستی کا حل بتا دیا تھا کہ جو پینتیس روپے میں وائٹ وے اینڈ لیڈالا کی دکان سے دستیاب ہو سکتا تھا۔

    اس روز ٹیسٹ کسی بہانے سے موقوف کردیا گیا۔ کلدیپ جب اسٹوڈیو سے باہر نکلی تو میں نے بے تکلفی سے ساری بات جو اس معاملے کے متعلق تھی، بتا دی ۔اور اس سے کہا کہ وہ آج ہی فورٹ میں جا کر چیزیں خرید لے جس سے اس کے جسم کا نقص دور ہو جائے گا۔ اس نے بلا جھجک میری بات سنی اور کہا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ چنانچہ وہ اسی وقت پران کے ساتھ گئی اور وہ چیز خرید لائی، جب دوسرے روز اسٹوڈیو میں اس سے ملاقات ہوئی تو زمین و آسمان کا فرق تھا۔ یہ چیزیں ایجاد کرنے والے بھی بلا کےآدمی ہیں جو یوں چٹکیوں میں ’’معاملوں‘‘ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔

    واشنگ نے جب اسے دیکھا تو وہ مطمئن تھا۔ گو کلدیپ کی ناک اسے تنگ کررہی تھی مگر اب دوسرا معاملہ بالکل ٹھیک تھا۔ چنانچہ اس نے ٹیسٹ لیا اور جب اس کا پرنٹ تیار ہوا اور ہم سب نے اسے اپنے ہال میں دیکھا تو اس کی شکل و صورت کو پسند کیا اور یہ رائے متفقہ طور پر قائم ہوئی کہ وہ خاص رولز کے لیے بہت اچھی رہے گی۔ خصوصاً ویمپ رول کے لیے۔ کلدیپ کور سے مجھے زیادہ ملنے جلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پران چونکہ دوست تھا اور اس کے ساتھ اکثر شامیں گزرتی تھیں اس لیے کلدیپ بھی کبھی کبھی ہمارے ساتھ شریک ہو جاتی تھی، وہ ایک ہوٹل میں رہتی تھی جو ساحل سمندر کے پاس تھا، پران بھی اس سے کچھ دور ایک سکویل میں مقیم تھا جہاں اس کی بیوی اور بچہ بھی تھا لیکن اس کا زیادہ وقت کلدیپ کور کے ساتھ گزرتا تھا۔ میں اب آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔

    میں اور شیام تاجی ہوٹل میں بیئر پینے جارہے تھے کہ راستے میں مشہور نغمہ نویس مدھوک سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیں’’ایروس سینما‘‘ کی بار میں لے گیے۔ وہاں ہم سب دیر تک بیئر نوشی میں مشغول ہے۔ مدھوک ٹیکسیوں کا بادشاہ مشہور ہے۔ باہر ایک گرانڈیل ٹیکسی کھڑی تھی۔ یہ مدھوک کے پاس تین دن سے تھی۔جب ہم فارغ ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ مدھوک صاحب کو اپنی محبوبہ نگار سلطانہ کے پاس جانا تھا ،جس سے کسی زمانے میں شیام کا بھی تعلق تھا اور کلدیپ کور بھی اس کے آس پاس ہی رہتی تھی۔ شیام نے مجھ سے کہا، ’’چلو پران سے ملتے ہیں۔‘‘

    چنانچہ مدھوک صاحب کی ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم وہاں پہنچے۔ وہ تو اپنی نگار سلطانہ کے پاس چلے گئے اور ہم دونوں کلدیپ کور کے ہاں۔ پران وہاں بیٹھا تھا۔ ایک مختصر سا کمرہ تھا۔ بیئر پی ہوئی تھی۔ غنودگی طاری ہوئی تھی۔ اس کوزائل کرنے کے لیے شیام نے سوچا کہ تاش کھیلنی چاہیے۔ کلدیپ فوراً تیار ہوگئی۔ پران نے کہا کہ فلش ہوگی۔ ہم مان گیے۔ فلش شروع ہوگئی۔ کلدیپ اور پران ایک ساتھ تھے۔ پران ہی پتے بانٹتا تھا، وہی اٹھاتا تھا اور کلدیپ اس کے کاندھے کےساتھ اپنی نوکیلی ٹھوڑی لگائے بیٹھی تھی۔ البتہ جتنے روپے پران جیتتا تھا، اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیتی۔اس کھیل میں ہم صرف ہاراکیے۔میں نے فلش کئی مرتبہ کھیلی ہے لیکن وہ فلش کچھ عجیب و غریب قسم کی تھی۔ میرے پچھتر روپے پندرہ منٹ کے اندر اندر کلدیپ کور کے پاس تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آج پتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹھکانے کے آتے ہی نہیں۔

    شیام نے جب یہ رنگ دیکھا تو مجھ سے کہا، ’’منٹو اب بند کرو۔‘‘ میں نے کھیلنا بند کردیا۔ پران مسکرایا اور اس نے کلدیپ کور سے کہا، ’’کے کے پیسے واپس کردو منٹو صاحب کے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ غلط ہے۔ تم لوگوں نے جیتے ہیں، واپسی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اس پر پران نے مجھے بتایا کہ وہ اول درجے کا نوسر باز ہے۔ اس نے جو کچھ مجھ سے جیتا ہے اپنی چابک دستی کی بدولت مجھ سے جیتا ہے۔ چونکہ میں اس کا دوست ہوں اس لیے وہ مجھ سے دھوکا کرنا نہیں چاہتا۔ میں پہلے سمجھا کہ وہ اس حیلے سے میرے روپے واپس کرنا چاہتا ہے لیکن جب اس نے تاش کی گڈی اٹھا کر تین چار بار پتے تقسیم کیے اور ہر بار بڑے داؤ جیتنے والے پتے اپنے پاس گرائے تو میں اس کے ہتھکنڈے کا قائل ہوگیا۔ یہ کام واقعی بڑی چابکدستی کا ہے۔ پران نے پھر کلدیپ کور سے کہا کہ وہ روپے واپس کردے مگر اس نے انکار کردیا۔ شیام کباب ہوگیا۔ پران ناراض ہو کرچلا گیا۔ غالباً اسے اپنی بیوی کے ساتھ کہیں جانا تھا۔ شیام اور میں وہیں بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر شیام اس سے گفتگو کرتا رہا۔ پھر اس نے کہا، ’’آؤ چلو سیر کریں۔‘‘ کلدیپ راضی ہوگئی۔

    ٹیکسی منگوائی۔ ہم سب بائی کھلہ روانہ ہوئے۔ کلیئر روڈ پر میرا فلیٹ تھا۔ ہم سیدھے وہاں پہنچے، گھر میں ان دنوں کوئی بھی نہیں تھا۔ شیام میرے ساتھ رہتا تھا۔ ہم فلیٹ میں داخل ہوئے تو شیام نے کلدیپ سے چھیڑ خانی شروع کردی۔ کلدیپ بہت جلد تنگ آنے والی عورت نہیں، وہ کسی مرد سے گھبراتی بھی نہیں۔ اس کو خود پر پورا پورا اعتماد ہے چنانچہ وہ دیر تک شیام کے ساتھ ہنستی کھیلتی رہی۔

    ہاں میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ جب ہم کلیئرروڈ پر پہنچے تو کلدیپ نے ایک اسٹور کے پاس ٹیکسی روکنے کے لیے کہا کہ وہ سینٹ کی شیشی خریدنا چاہتی ہے۔ شیام سخت کباب تھا کہ وہ اس روپے سے ہر چیز خریدے گی جو پران نے نوسر بازی کے ذریعے مجھ سے جیتے تھے۔ پر میں نے اس سے کہا کہ کوئی حرج نہیں، تم اس بات کا کچھ خیال نہ کرو، ہٹاؤ اس قصے کو۔ کلدیپ کے ساتھ میں اسٹور گیا، اس نے یارڈلےکا سینٹ پسند کیا۔ اس کی قیمت بائیس روپے آٹھ آنے تھی۔ کلدیپ نے خوبصورت شیشی اپنے پرس میں رکھی اور مجھ سے کہا، ’’منٹو صاحب! قیمت ادا کردیجیے۔‘‘

    میں اس سینٹ کے دام ہرگز ادا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر دکاندار میرا واقف تھا اور پھر ایک عورت نے اس انداز میں مجھ سے قیمت ادا کرنے کو کہا تھا کہ انکار کرنا مردانہ وقار کی تذلیل کا باعث ہوتا۔ چنانچہ میں نے جیب سے روپے نکالے اور ادا کردیے۔ فلیٹ میں جب شیام کو معلوم ہوا کہ سینٹ میں نے خرید کر دیا ہے تو وہ آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے مجھے اور کلدیپ کور کو پیٹ بھر کرگالیاں دیں لیکن بعد میں نرم ہو گیا۔ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ کلدیپ کسی نہ کسی طرح رام ہو جائے۔ میں نے بھی کوشش کی اور کلدیپ مان گئی۔ میں نے شیام اور اس سے کہا کہ ’’میں جاتا ہوں، تم دونوں آپس میں سمجھوتہ کرلو۔‘‘ مگر اس نے کہا کہ، ’’نہیں یہ سمجھوتہ اس کے ہوٹل میں ہوگا۔‘‘ ٹیکسی نیچے کھڑی تھی۔ دونوں اس میں چلے گیے۔میں خوش تھا کہ چلو یہ قصہ طے ہوا۔

    مگر پون گھنٹے بعد ہی شیام لوٹ آیا، سخت غصے میں بھرا ہوا تھا۔ میں نے اسے برانڈی کا گلاس پیش کیا تو میں نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ زخمی ہے۔ خون بہہ رہا ہے، میں نے بڑی تشویش کے ساتھ پوچھا۔ وہ کباب تھا، لیکن برانڈی نے اس کے موڈ کو کسی قدر درست کردیا۔ اس نے بتایا کہ جب وہ کے کے، کے ساتھ اس کے ہوٹل میں پہنچا اور وہ ٹیکسی سے باہر نکلے تو وہ (کلدیپ کور گالی دے کر) منکر ہوگئی۔ مجھے سخت غصہ آیا۔ ہم دونوں ایک پتھریلی دیوار کے پاس کھڑے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم لاہور میں مجھ پر مرتی تھیں، اب یہ کیا نخرہ ہے۔ اس نے جواب میں کچھ ایسی بات کہی کہ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے تان کر گھونسہ مارا لیکن وہ۔۔۔ ایک طرف ہٹ گئی اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔ وہ ہنستی، قہقہے لگاتی اوپر ہوٹل میں چلی گئی اور میں کھڑا اپنا زخمی ہاتھ دیکھتا رہا۔

    کلدیپ کور عجیب و غریب شخصیت کی مالک ہے جس طرح اس کی ناک تیکھی ہے، اسی طرح اس کا کردار تیکھا اور نوکیلا ہے۔ پچھلے دنوں یہ خبر آئی کہ اس پر ہندوستان میں پاکستان کی جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہے۔ معلوم نہیں اس میں کہاں تک صداقت ہے لیکن میں وثوق سے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس جیسی عورت ماتا ہری کبھی نہیں بن سکتی جس کا ظاہر باطن ایک ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے