پرنانی
پرنانی اپنے ہی کُٹم کی نہیں بلکہ سارے محلے کی پرنانی تھیں۔ بچے تو بچے ہر جاننے والا بوڑھا ہو یا جوان، ان کو پرنانی کہتا تھا۔ زندگی کے باغ میں ان کی ہستی ایک ایسے درخت کے مانند تھی جو خزاں کے متواتر جھونکوں سےلنڈ منڈرہ گیا ہو۔ پھل پھول آنے بند ہوگئے ہوں اور جو صرف اس انتظار میں کھڑا ہو کہ فنا کی آندھی اسے گراکر رکھ دے اور وہ جو کبھی زینتِ چمن تھا، کوڑا سمجھ کر پھینک دیا جائے یا خاک اس کو اپنی غذا بنالے۔
پرنانی کی عمر کا یہ اک سو پچیسواں مرحلہ تھا۔ دہلی کے لال قلعے میں جوانی گزاری تھی۔ بہادر شاہ مغل تاج دار ان ہی کی گودیوں میں پلے بڑھے، جوان ہوئے، تخت پر بیٹھے اور ان ہی کی آنکھوں کے سامنے رنگون بھیجے گئے۔ ان کا اپنا کنبہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں اور پھر پوتے پوتیاں، نواسےنواسیاں، خدا کی دی ہوئی جیتی جاگتی ایک دولت تھی جس پر بیٹھی ہوئی پرنانی راج کیا کرتی تھیں۔ لیکن یہ ساری بہار کچھ تو غدر میں لُٹ گئی اور کچھ موت نے تاراج کردی۔
جب تک پرنانی سہاگن رہیں، دن عید اور رات شب برات تھی۔ ان کے نصیب کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ سہاگ کیا اجڑا کہ مانگ کے ساتھ کوک میں بھی آگ لگ گئی۔ آج ایک بیٹا مرا تو کل دوسرا۔ اس ہفتے پوتے کو روئیں تو اگلے ہفتے نواسے کو۔ شعبان میں نواسی نے دم توڑا تو شوال میں پوتی نے۔ دوتین برس کے اندر اندر گھر بھر کا صفایا ہوگیا۔ جانوں کے ساتھ مال پر بھی جھاڑو پھر گئی۔ برباد بڑھیا کلیجا مسوستی تھی اور رہ جاتی تھی۔ قضا کے مالی نے بھی سارے شاداب شگوفے ایک ایک کر کے چُن لیے اور اس مرجھائی ہوئی پتیوں والے پھول کو نہ پوچھا۔
شاہی زمانے کا اتنا بڑا ڈھنڈار مکان اور ایک بڑھیا کا دم۔ پیٹ کی اولاد میں صرف ایک نواسی آمنہ باقی تھی وہ کبھی کبھی دن بھر کو آجاتی تو بچاری کا کچھ دل بہل جاتا۔ آمنہ اپنی ذات سے تو خاصی محبت کرنےوالی لڑکی تھی، مگر اس کا خاوند بڑا دماغ چوٹّا مرد تھا۔ اور بچے ایسے بُرے اٹھے تھے کہ خدا کی پناہ۔ تاہم پرنانی کا ان کے سوا تھا بھی کون؟ اتفاقاً ان ہی دنوں میں آمنہ کے میاں احمد مرزا کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ احمد مرزا کا کوئی ٹھکانا رہا نہیں۔ خود کماؤنہ تھے، باپ کے صدقے میں دندناتے تھے۔ قصہ مختصر آمنہ کرایے کے مکان سے اٹھ نانی کے پاس آگئیں اور مرزا صاحب باپ کے دسترخوان سے اٹھ کر ننھیاساس کے دسترخوان پر آبیٹھے۔
کچھ دن تو بڑی بی کی خوب خاطریں ہوئیں۔ ان کو نہلایا جاتا دھلایا جاتا تھا۔ میاں احمد مرزا بھی باہر آتے جاتے سلام کرتے تھے۔ بچے ذرا سا بھی غل مچاتے تو بیسیوں فضیحتے سنتے۔ جانا تھا کہ پکا پان ہے آج نہ مری کل مری۔ اس کے پیٹ میں گھس کر جو کچھ جمع جکھڑی ہے موس لیں۔ دس کھنڈلے ہیں ان پر قبضہ ہوجائے۔ مگر بڑھیا کی پرانی ہڈیاں تھیں۔ پانچ سیر کا گھی کھایا تھا وہ ایسی جلدی کیوں مرتی۔ اس کی تو اس بڑھاپے میں مٹی خراب ہونی تھی۔ غرض کہ جب بڑی بی نے مرنے کا نام نہ لیا اور ان کی ہر چیز پر آمنہ اور اس کے شوہر کا تسلط ہوگیا تو بال پڑے مٹکے کی طرح غریب کو باورچی خانے کے پاس ایک ٹھڑی میں ڈال دیا۔
اب بچاری پرنانی کا لکھا پورا ہونے لگا۔ جب سب کھاچکے تو بچا کھچا جھوٹن جھاٹن کھانے کو مل جاتا۔ مٹی کا پیالہ اور ایک ٹوٹی جھجری پانی کے لیے رکھ دی اور اس کی بھی کوئی خبر نہ لیتا کہ خالی ہے یا بھری۔ کچھ مانگتی تو کوسنے اور گالیاں کھاتی۔ اپنی تقدیر پر روتی تو بچے نقلیں کرتے منہ چڑاتے۔ آنکھوں میں روشنی تھی تو محبت کی دنیا میں اندھیرا تھا۔ زبان میں طاقت تھی، مگر اپنی دُرگت کا ماجرا کس کو سناتیں۔ کوٹھری میں پڑی ہوئی اولاد کے داغ گنا کرتی یا اپنے گزرے ہوئے وقتوں کا ماتم کرتی رہتی۔ پاس پڑوس کی کوئی آنے جانے والی عورت آتی اور پرنانی اس کو آواز دے لیتیں تو آمنہ یہ کہہ کر کہ ‘‘بوا ان کا تو دل چل گیا ہے تم بھی کس کی باتوں میں آگئیں۔ ادھر آؤ۔’’ اٹھالے جاتی اور بڑی بی منہ دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتیں۔
بڑی بی نے آمنہ کو اپنے جگر کا ٹکڑا سمجھا تھا۔ انھیں یہ کیا خبر تھی کہ اپنا پلایا ہوا دودھ زہر ہوجائے گا۔ اور نواسی نانی کو گھر کا کوڑا سمجھنے لگے گی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آمنہ بیگم نے ترس کھاکر بڑھیا کو اپنے گھر میں جگہ دے دی ہے اور پرنانی مرزا صاحب کے ٹکڑوں پر پڑی ہوئی ہیں۔ پرنانی نے آخر کیا گناہ کیا تھا جس کے بدلے میں یہ سلوک کیے جاتے تھے۔ اس نے گھر کی بستی کے لیے نواسی کو آباد کیا، اپنے گھر بار کا مالک بنایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جس کی بدولت آمنہ اور اسکے بال بچے چین چین کر رہے تھے، اس کی دل سے خدمت کی جاتی، اس کے پاؤں دھو دھو کر پیتے۔ اس کو بڑی بوڑھیوں کی طرح تبرک سمجھ کر رکھتے۔ اسے راحت کے ساتھ مرنے کا موقع دیتے۔ لیکن دنیا کی خودغرصی نے آمنہ اور اس کے خاوند دونوں کی آنکھیں بند کردی تھیں۔ پرنانی اپنے گھر میں رہتی تھیں اور فقیرنی بن کر۔ وہ اپنے دسترخوان سے بھیک مانگتی تھیں اور انھیں بڑی حقارت سے ٹکڑا ملتا تھا۔
چند روز تک تو بڑھیا اپنی حالت پر روتی رہی، پھر اسے صبر آگیا۔ دوچار پرانی چیزیں جو اس نے اپنی کوٹھڑی میں رکھ لی تھیں اور جن کی اب وہ مالک تھی ان سے دل بہلانے لگی۔ گھنٹوں ایک ایک چیز کو دیکھتی اور آپ ہی آپ باتیں کرتی۔ یہ نہ سونے چاندی کے برتن تھے نہ قیمتی زیورات۔ نہ کوئی کم خواب وزربفت کا لباس تھا۔نہ دولت کے مخفی خزانے۔ لیکن بڑھیا کے لیے یہ سب انمل بے جوڑ چیزیں اس کی زندگی کے افسانے کے دلچسپ ٹکڑے تھیں۔ کہیں اس کو اپنا بچپن کھیلتا نظر آتا تھا تو کہیں اس کی جوانی انگڑائیاں لے رہی تھی۔ کسی شے میں وہ اپنی مرحوم مسرتوں کو مسکراتےہوئے دیکھتی تھی تو کسی میں اپنی اولاد کی مٹی ہوئی تصویریں اسے دکھائی دیتی تھیں۔ گویا سوا سو برس کی ایک تاریخ تھی جس کا وہ بڑے انہماک کے ساتھ مطالعہ کرتی رہتی تھی۔
اِن پُرانی یاد گار چیزوں میں سب سے زیادہ دلچسپ اور اس کی سوانح حیات کا سب سے اہم باب ایک مرقع یا ہزار جامے کی دُلائی تھی، جسے سیکڑوں رنگ برنگ کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا تھا۔ کپڑے کی کوئی قسم ایسی نہ ہوگی جس کی کوئی نہ کوئی کترن اس میں نہ ہو۔ سب ہی قسم کے نمونے اس میں موجود تھے۔ گویا کپڑوں کے آثارِ قدیمہ کی نمایش تھی۔ وضع قطع کے لحاظ سے اقلیدس کی ساری شکلیں مختلف پیمانوں میں موجود تھیں۔ بیچ میں ایک چوکور، پیازی رنگ کا ریشمی ٹکڑا اس سلیقے سے ٹانکا گیا تھا کہ یہ متن اور دوسرے حاشیے معلوم ہوتےتھے۔ جب کبھی یہ سی گئی ہوگی تو دیکھنے والے اسے گدڑی نہیں بلکہ بناوٹ کا کرشمہ سمجھتے ہوں گے لیکن اب تو یہ رائے پتھورا کا قلعہ تھی۔ بڑی بی کے ساتھ اس کا رنگ روپ بھی رخصت ہوچکا تھا۔ جوڑوں پر سے ٹانکوں نے دانت نکوس دیے تھے۔ کہیں تانا ہی تانا رہ گیا تھا، بانا غائب تھا۔ جگہ جگہ سے کیڑوں نے بھی اپنی خوراک حاصل کرلی تھی۔ اس دلائی کو بڑی بی کی سب سے زیادہ چاہیتی بیٹی آمنہ کی ماں، رقیہ نے اپنی جوانی کا رنڈاپا بہلانے کے لیے سیا تھا۔ پرنانی کے مشورے بھی اس کے جوڑ ملانے اور ٹکڑوں کی ترتیب میں خاص اہمیت رکھتے تھے۔ اس کا ہر پیوند ماں بیٹیوں کی زندگی کا راز شادی و غم کی تصویر، گونگے کا خواب اور آنکھوں سے گزرا ہوا ایک افسانہ تھا۔ اس لیے دوسرے نہ مٹنے والے داغوں کی طرح بڑھیا اس کو بھی سینے سے لگائے رکھتی تھی۔
ایک دن کسی تقریب کے سلسلے میں سفیدی ہو رہی تھی، دنیا کو دکھانے کے لیے آمنہ نے چاہا کہ بڑی بی کی کوٹھڑی بھی صاف کردی جائے۔ چنانچہ اس نے سارا گڑ گودڑ باہر نکال پھینکا اور بچوں نے ان کو تماشا بنالیا۔ دُلائی کی نوبت آئی تو بچاری بہت سٹپٹائی۔ روئی چیخی، جھنجلائی، منتیں کیں۔ گڑ گڑائی مگر آمنہ کی منہ زوری اور سخت گیری کے سامنے ایک نہ چلی۔ اب اِدھر سفیدی ہو رہی تھی اور ادھر غریب بے آس بڑھیا کونے کونے میں اپنی چیزوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ اگر کوئی چیتھڑا مل جاتا تو بچے جھپٹا مار کر لے جاتے اور وہ دیوانوں کی طرح ہاتھ پھیلاتی رہ جاتی۔ سفیدی ہوگئی تو پرنانی اپنی کھٹیا پر جابیٹھیں اور اپنے وقت کا زیادہ حصہ خاموش آنسو بہانے اور لمبے لمبے سانس لینے میں گزارنے لگیں۔ دقیانوسی خیال کے لوگوں کا قاعدہ ہے کہ وہ گھر کی پرانی چیزیں خواہ وہ کتنی ہی بے کار اور فضول کیوں نہ ہوں، ضائع نہیں کرتے اور داشتہ آید بکار کہہ کر کسی مچان یا کسی کونے کھدرے میں رکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح آمنہ نے بھی جب سفیدی ہوچکی تو گھر کی دوسری غیرضروری چیزوں کے ساتھ بڑی بی کا گوڈڑ بھی سمیٹ کر کاٹ کباڑ کی کوٹھری میں ڈال دیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ایسی ایسی کئی تقریبیں آمنہ کے ہاں ہوئیں اور بڑی دھوم سے ہوئیں۔ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ خوب دل کھول کر روپیہ خرچ کیا۔ دونوں میاں بیوی نے پیٹ بھر کر ارمان پورے کی۔ احمد مرزا کی اپنی کمائی ہوتی تو دل بھی دکھتا۔ پرنانی بچاری کا اثاثہ تھا خاصے لگا۔ یہ سدا کے کھٹو تھے۔ باپ کی کھرچن ختم ہوئی تو ننھیا ساس کا سر سہلانے لگے۔ ایسے اللّے تللّے کی زندگی کے واسطے قارون کا خزانہ بھی کم ہے۔ چند ہی روز میں بڑھیا کی جائداد کا لگا لگ گیا۔ پہلے رہن کی پھر فروخت ہوئی۔ صرف یہ رہنے کا مکان اور اس کے ملحق بازار کے رُخ کی گیارہ دکانیں رہ گئیں۔ چھوٹے لڑکے کو گھوڑی چڑھانے کے لیے جو دو ہزار روپے قرص لیے تھے اس کا تقاضا شروع ہوا۔ بڑی لڑکی کا کارِ خیر ضروری تھا۔ لڑکے والوں کا اصرار اور اپنے دل کی خوشی کا موقع کیوں کر ہاتھ سے دیا جاتا۔ جیتے جی کے یہی میلے ہیں۔ فکر ہوئی کہ اس مکان کو بھی ایک دو تین کردینا چاہیے۔ اتنے بڑے ڈھنڈار مکان کی کیا ضرورت ہے۔ لالہ جگّو مل نے پچاس ہزار لگائے ہیں۔ فی الحال ستر اسی روپے کا کرایہ ہے اور بھی مشکل سے پٹتا ہے۔ چالیس ہزار کی اچھے موقعے کی جائداد خرید لیں گے تو ڈھائی سو کا کرایہ ہوجائے گا۔ باقی دس ہزار میں قرض ادا کرنے کے بعد لڑکی وداع ہوجائے گی۔ خود قرول باغ میں سستا مکان لے کر جارہیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلّا لیکن دشواری یہ تھی کہ اس کا قبالہ ان کے پاس نہ تھا اور بغیر قبالہ دیکھے خریدے کون؟
جب پانی گلے گلے آگیا اور قرض خواہوں نے ناک میں دم کردیا تو پرنانی کی طرف متوجہ ہوئے۔ پہلے تو کوٹھڑی کا کونا کونا چھان مارا۔ بُڑھیا کا گڑ گودڑ دیکھ ڈالا۔ آخر جھک مار کر کہنا ہی پڑا کہ ‘‘نانی اماں! تمھارے داماد کی آبرو پر بن گئی ہے۔ مکان کی بات چیت ہو رہی ہے۔ قبالہ دے دوگی تو جان بچ جائے گی، ورنہ یہ زہر کھانے کو تیار بیٹھے ہیں۔’’ مگر بڑھیا ٹس سے مس نہ ہوئی اور ایسی انمِل بے جوڑ باتیں کہیں کہ سمجھ میں نہیں آیا۔ غرض باولی ہوتی ہے۔ اب بڑی بی کی خاطریں ہونے لگیں۔ دونوں وقت آمنہ خود کھانا لے کر آتی اور جب تک بڑی بی کھاتیں وہ پاس بیٹھی ہوئی خوشامد کیا کرتی۔ آمنہ کے میاں بھی آتے جاتے مزاج پوچھتے اور دن میں ایک دو مرتبہ خوشامد سے قبالے کی بابت دریافت کرتے۔ پرنانی ٹھنڈے سانس بھرتیں اور کبھی کچھ کہہ دیتیں اور کبھی کچھ۔ اسی طرح کئی ہفتے گزر گئے، ایک دن صبح کو آمنہ اور اس کا خاوند دونوں مل کر پرنانی کے پاس گئے اور حد سے زیادہ گڑگڑائے تو بڑھیا نے صرف اتنا کہا کہ جنھیں تم نے چیتھڑے جان کر پھینک دیا تھا وہ سب مکانوں کے قبالے تھے۔ ان ہی میں اس مکان کا کاغذ بھی تھا۔ وہ لادو تو نکال دوں۔ اِن باتوں سے دونوں میاں بیوی مایوس ہوگئے اور مطلب برآری کی ترکیبیں سوچنے لگے۔
کاٹ کباڑ کی کوٹھڑی میں اتفاق سے بلی نے بچے دیے۔ یہ سنتے ہی چنو، منو، کریما، سلو وغیرہ سارے بچے کوٹھڑی میں جاگھسے۔ بلی کے بچے کی تلاش میں جو ٹوٹی پھوٹی چیزوں کو اِدھر ادھر کیا تو ایک کونے میں پرنانی کا تاریخی پنجر بھی دھرا ہوا تھا اور سب سے اوپر ان کی دلائی پڑی تھی۔ آمنہ کی چھوٹی لڑکی نصیرا کو اور بہن بھائیوں کے خلاف پرنانی سے قدرتی لگاؤ تھا۔ وہ دیکھا کرتی تھی کہ بڑی بی کو اپنی دُلائی کے جاتے رہنے کا بڑا رنج ہے۔ یہ دُلائی کو لے سیدھی پرنانی کے پاس پہنچی اور کہنے لگی ‘‘نانی اماں! آپ کی دُلائی مل گئی۔ نہ جانے کس نے پاخانے کے پاس کی کوٹھڑی میں ڈال دی تھی۔’’ بڑھیا کے بدن میں دُلائی دیکھتے ہی جان سی آگئی۔ دُلائی کو کلیجے سے لگایا اور نصیرا کو لاکھوں دعائیں دیں۔
دُلائی کے چھن جانے سے پرنانی کے بڑھاپے میں جو دیوانگی سی پیدا ہوگئی تھی، کم ہوچلی۔ اس کا کرب اور بے چینی سکون سے بدل گیا۔ اب وہ کبھی کبھی اپنی کوٹھڑی سے سرباہر نکال کر جھانکتی اور اگر نصیرا اکیلی آجاتی تو اشارے سے اس کو اپنے پاس بلالیتی اور دُلائی کو اپنے سامنے رکھ کر کہتی ‘‘بیٹی کہانی سنوگی؟ جگ بیتی نہیں آپ بیتی ہے۔ بیٹی یہ کپڑے کے ٹکڑے، نہیں ہیں میرے کلیجے کے پُرزے ہیں۔ تمھاری نانی نے سیے تھے۔ یہ کم خواب کی کترن بہادر شاہ کی کُرتے ٹوپی میں سے بچی تھی۔ یہ مشروع کا ٹکڑا زینت محل کا پایجامہ تراشتے وقت نکلا تھا۔ یہ میرے سہاگ کے جوڑے کی چھٹن ہے۔ یہ عنّابی اور اودے زربفت کے ٹکڑے تمھاری بڑی نانی کے جہیز کی یادگار ہیں۔ بچاری بن بیاہی جنت کو سدھار گئیں۔ یہ جامے دار تمھاری اماں کے منجھلے ماموں کی اچکن میں سے بچی تھی جو اپنی جوانی کے اٹھارویں برس عید کے دن گھوڑے سے گر کر مجھ کو داغ دے گئے تھے۔ ہائے کیسا کڑیل جوان تھے سہرا باندھنا بھی نصیب نہ ہوا۔ اور یہ جو چوڑا چکلا پیازی رنگ کی دریائی کا ٹکڑا تم دیکھتی ہو۔۔۔ بڑھیا ایک ہاتھ سے چھاتی پکڑ کر اور دوسرے ہاتھ سے آنسو پونچھتے ہوئے ابھی اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ آمنہ نے چلا کر کہا ‘‘اری او نصیرا۔ مردار چھمّی کا منہ دھلاتے دھلاتے کہاں مرگئی، جب دیکھو بڑھیا کے کلیجے میں گھسی بیٹھی رہتی ہے۔ ناشدنی، دیوانی کے پاس بیٹھتے بیٹھتے دیوانی ہوجائے گی۔’’
پرنانی کی الف لیلہ، آمنہ کی کڑوی آواز نصیرا کے یکایک اٹھ کر چلے جانے سے بدمزہ ہونی چاہیے تھی، مگر نہیں اس کا حافظہ تنہائی پاکر اور تیز ہوگیا۔ گویائی بھی تصورات میں محور ہوگئی۔ اب اس کی آنکھیں تو دُلائی کے پیازی رنگ کے ٹکڑے پر تھیں اور دماغ سو برس پہلے کا تیار کیا ہوا فلم خیال کے پردے پر اس طرح چل رہا تھا کہ گویا اس کی یہ اندھیری کوٹھڑی نئی روشنی کا سنیما حال ہے۔ ایک نوجوان اپنی مردانہ کیفیات سے سرشار ایک پیکر رعنائی کے سامنے بیٹھا ہوا سہرے اور گھونگھٹ کی آڑ میں آرسی مصحف کی رسم ادا کر رہا ہے۔ شوق و ارمان کے سبز باغ لہلہا رہے ہیں۔ پھر گھونگھٹ اٹھتا ہے۔ سہرے کے پھول کھلتے ہیں۔ گود بھری جاتی ہے۔ معصومیت کا فرشہ زندگی میں محبت کی تازہ روح پھونکتا ہے۔ شباب کے جذبات آہستہ آہستہ ازدواجی حقیقت اختیار کرتے ہیں۔ موانست پر موافقت کا رنگ چڑھنا شروع ہوتا ہے۔ دولہا کے چلبلے چہرے میں سنجیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ حسن کاخریدار باطنی جمال کا شیدا ہوکر ہمیشہ کے واسطے بک جاتا ہے اور اپنی تمام منقولہ و غیرمنقولہ جایداد اپنی شریک حیات کے نام جس پر پہلے آنکھیں نثار تھیں اور اب دل بھی قربان ہوچکا ہے، منتقل کردیتا ہے۔ عرصہ گزر جاتا ہے۔ پھلے پھولے باغ میں خزاں آنی شروع ہوتی ہے۔ پھول کملانے لگتے ہیں۔ دنیا کا ہر درخت خزاں کے بعد بہار کی امید رکھتا ہے۔ لیکن زندگی کے پودے کے لیے ‘‘اول ہی کا جھونکا ہے بہار آخر، نہ آنسوؤں کی آبیاری کام آتی ہے نہ ٹھنڈے سانسوں کی ہوا۔ سہاگن دلہن رنڈسالہ پہنے بیٹھی ہے۔ شوہر کی دی ہوئی جائداد کا ہبہ نامہ سامنے پڑا ہے۔ ہزار جامکے کی دُلائی سی جارہی ہے۔ کچھ خیال آتا ہے۔ اٹھتی ہے گٹھڑی میں سے ایک پیازی رنگ کا پھٹا ہوا انگرکھا نکالتی ہے۔ اس کے پہننے والی جوانی نظروں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ دامن تراش کر ایک مربع ٹکڑا نکالتی ہےاور اپنی محبت کی یادگار (ہبے نامہ) کو دُلائی کے سینے میں دفن کرکے اس ٹکڑے کو ٹانک دیتی ہے۔
بڑی بی کے خیالات کا سیریل یہیں تک پہنچا تھا کہ آمنہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کے پاس آئی۔ اپنے حالات سے پراگندہ ہوکر انھوں نے ایک دفعہ اور قبالے کی بابت دریافت کرنا چاہا۔ بڑی بی کی پرامن زندگی اور نصیرا سے گھل مل کر باتیں کرتے دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ اب بڑھیاں ہوش کی باتیں کرنے لگی ہے۔ تقدیر سیدھی ہے تو دولت کے خزانے کی کنجی بتادے گی۔ یہاں آکر جو دیکھا تو بڑی بی دیوار کی طرف ٹکٹکی لگائے کبھی بسورتی ہیں اور کبھی مسکراتی ہیں۔ گدڑی کو چھاتی سے لگا رکھا ہے۔ آمنہ حیران ہے کہ میں نے تو اسے اپلوں کی کوٹھڑی میں ڈلوا دیا تھا یہاں کیوں کر آگئی۔ مصنوعی ہنسی ہنستے ہوئے بولی ‘‘نانی اماں! پھر تم اس منحوس دُلائی کو سنگوا بیٹھیں۔ ایسے کیا اس میں لعل جڑے ہوئے ہیں جو کسی آن چھوڑتی ہی نہیں۔ دیکھو تو سہی موئی میں کیسی سڑی ہوئی بُو آرہی ہے۔ نصیرا جا، الگنی پر سے ساٹن کی دُلائی اتارلا اور نانی اماں کو اڑھا دے۔ نصیرا دوڑ کر ساٹن کی دُلائی لے آئی۔ آمنہ نے یہ دُلائی بڑھیا کو اڑھاکر اس کی گدڑی چھین لی اور نصیرا کو دے کر کہا، جا اسے کوڑے پر ڈال دے حلال خوری لے جائے گی۔
دوچار منٹ تو پرنانی اس آفتِ ناگہانی کا مقابلہ کرسکیں۔ نصیرا کی طرف ہاتھ بڑھائے چُپ چاپ دیکھتی رہیں۔ پھر ایک ٹھنڈا سانس لے کر کہا ‘‘بیٹی میری جان نہ نکال۔ اس میں میرے بہت سے پھولوں کی بُو بسی ہوئی ہے۔ جیتے جی اس کو مجھ سے نہ چھینو۔ صبح کا چراغ ہوں، پھونک مار کر کیوں بجھاتے ہو، خود بجھ جائے گا۔’’ یہ ایسی باتیں تھیں کہ آمنہ سی سنگ دل کے بھی آنسو نکل پڑے اور احمد مرزا جیسا مطلب کا بندہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آمنہ نے نانی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں، خون میں ابال آیا۔ آنکھوں نے سچی محبت کا اظہار کیا اور بھرے دل کو ضبط کرکے بولی ‘‘نانی اماں۔ میں نے آج تک جو تمھاری خطائیں کی ہیں، اپنی بیٹی رقیہ کے صدقے میں معاف کردو۔ میں شرمندہ ہوں کہ میں نے تمھارے ساتھ اچھے سلوک نہیں کیے۔ میں تم سے قبالہ کبھی نہیں مانگوں گی۔ تم کڑھو نہیں۔’’ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ آنسو اگر جھوٹے نہ ہوں تو بڑی قیمت رکھتے ہیں۔ بڑی بی کو معلوم ہوا کہ اس کی دنیا بدل گئی ہے۔ اس کو آمنہ میں جنت کی حور نظر آئی اور اس نے اپنے تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں سے اس کی بلائیں لے لیں، گلے لگایا اور پیار کیا۔ یہ منظر دیکھ کر احمد مرزا بھی ننھیا ساس کے قدموں میں گر پڑے اور اپنی خطاؤں کااعتراف کیا۔ بڑی بی نے انھیں بھی دعائیں دیں۔
نصیرا نے اپنی زندگی میں یہ نیا تماشا دیکھا۔ وہ کبھی دوسروں کو روتا دیکھ کر رونکھی صورت بنالیتی تھی۔ کبھی بے چین ہوکر اِدھر ادھر دیکھنے لگتی تھی۔ جب ندامت اور خوشامد گلے مل چکیں اور نصیرا نے اپنی اماں کو یہ کہتے ہوئے کہ ‘‘نانی اماں! اب تو آپ ناراض نہیں۔ کھاؤ میری جان کی قسم اور پرنانی کا یہ جواب کہ ‘نہیں آمنہ! تیری جان کی قسم میں تم سب سے خوش ہوں۔میرا تمھارے سوا ہے کون۔’’ نصیرا اپنی اماں سے پوچھنے لگی کہ ‘‘اماں!نانی کو دُلائی دے دوں۔ اب تو ملاپ ہوگیا۔’’ ماں نے بیٹی کی طرف اور نانی نے نواسی کی جانب ایک عجب انداز سے دیکھا۔ آمنہ نے نصیرا سے تو کچھ کہا نہیں۔ نانی سے بولی۔ ‘نانی اماں جانے دو اس گودڑ کا کیا کروگی۔’
‘‘نہیں بیٹی رہنے دو۔ تمھاری ماں کی یادگار ہے۔’’ بڑھیا نے کہا اور نصیرا پر نظر ڈالی۔ نصیرا دلائی کو دبوچ کر بولی۔’’ اب میری باری ہے بڑے پیازی ٹکڑے کی کہانی پہلے سنادو پھر دوں گی۔’’
بڑھیا کی ساری افسردگی دور ہوگئی تھی۔ اس کا خیال بدل چکا تاب۔ وہ مرنے سے پہلے مکان کا بوجھ بھی اپنی چھاتی پر سے ہٹانا چاہتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ آمنہ اور اس کا فضول خرچ شوہر اب سنبھل جائے گا۔ اس لیے اس نے برے اطمینان سے جواب دیا۔ ‘‘ لاؤ دُلائی میرے سامنے رکھو۔ میں اس بڑے ٹکڑا کا بھی قصہ سُنادوں، اور دُلائی لے کر بڑے ٹکڑے کو ادھیڑتے ہوئے کہا۔ بچو! یہ ہزار جامے کی دُلائی نہیں ہے بلکہ ہزار داستان ہے (پیازی رنگ کے ٹکڑے کو الگ کرکے ہبہ نامہ ہاتھ میں لے کر) یہ اس کی قبر تھی۔ لونانی صدقے اور نانی کا مکان تم پر صدقے، لیکن دوسری جایداد کی طرح اس کی بربادی کے پیچھے نہ پڑنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سر چھپانے کا یہ جھونپڑا اور روٹی کھانے کا سہارا بھی جائے۔ اللہ تم کو اس میں آباد رکھے اور تم اپنے بچوں کا سُکھ دیکھو!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.