معلوم نہیں کیوں لیکن میں جب بھی رفیق غزنوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے معاً محمود غزنوی کا خیال آتا ہے جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے جن میں سے بارہ مشہور ہیں۔ رفیق غزنوی اور محمود غزنوی میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں بت شکن ہیں۔ رفیق غزنوی کے پیش نظر کوئی ایسا سومنات نہیں تھا جس کے بت توڑ کر وہ اس کے پیٹ سے زر و جواہر نکالتا پھربھی اس نے اپنی زندگی میں کئی طوائفوں کو (جن کی تعداد بارہ تک پہنچ سکتی ہے) استعمال کیا۔
رفیق غزنوی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آبا و اجداد غزنی کے رہنے والے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس نے غزنی دیکھا ہے یا نہیں۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ پشاور میں رہتا تھا، اس کو پشتو بولنا آتی ہے، افغانی، فارسی بھی جانتا ہے۔ ویسے عام طور پر پنجابی میں گفتگو کرتاہے۔ انگریزی اچھی خاصی لکھ لیتا ہے۔ اردومیں اگر مضمون نگاری کرتا تو اس کا بڑا نام ہوتا۔
اس کو اردو ادب سے بڑا شغف ہے۔ اس کے پاس اردو لٹریچر کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ گلشن محل (بمبئے) میں اس کے کمرے میں بڑی ترتیب سے رکھی ہوئی کتابیں دیکھیں تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ محض ایک میراثی ہے جسے ادب سے کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا لیکن جب اس سے باتیں ہوئیں تو اس نے ایسے ایسے مصنفوں کا نام لیا جن سے میں واقف نہیں تھا۔ اس نے میری معلومات میں اضافہ کیا کہ ایک ابوالفضل صدیقی ہیں جو چرندوں اور پرندوں کی کہانیاں لکھنے کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ چنانچہ میں نے ان کے افسانے پڑھے اور پسند کیے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مضمون جو مجھے رفیق غزنوی پر لکھنا ہے، کہاں سے شروع کروں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ شروع ہو چکا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر بھی ہو جائے گا ،اس لیے میں اپنے حافظے کو ٹٹول کر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی۔
عجیب بات ہے کہ اس سے جسمانی طور پر متعارف ہونے سے پہلے ہی میں اسے جانتا تھا۔ کیسے جانتا تھا، کب جانتا تھا، یہ مجھے یاد نہیں۔ آج سے غالباً چوبیس پچیس برس پیچھے کی بات ہے، میں امرتسر میں بجلی والے چوک سے گزر رہا تھا کہ ایک پان والے نے مجھے آواز دی۔ میں رک کر اس کی دکان کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’بابو صاحب اتنی دیر ہوگئی ہے اب تو حساب چکا دیجئے؟‘‘
میں بہت متحیر ہوا اس لیے کہ اس پان والے سے میرا کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔ میں نے اس سے کہا، ’’کیسا حساب۔۔۔ میں تو آج پہلی مرتبہ تمہاری دکان کے پاس ٹھہرا ہوں۔‘‘
یہ سن کر پان والے کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’نہ دینے والے اسی طرح کہا کرتے ہیں۔‘‘جب میں نے اس سے تفصیل چاہی تو پتہ چلا کہ وہ مجھے رفیق غزنوی سمجھتا تھا جو اس سے ادھار لیتا تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں سعادت حسن منٹو ہوں تو اس نے مجھ سے کہا کہ میری اور رفیق کی شکل بہت ملتی جلتی ہے۔رفیق غزنوی کا نام تو میں بہت پہلے سن چکا تھا۔ اس سے ملنے کی مجھے کوئی خواہش نہیں تھی، پر جب میں نے سنا کہ اس کی شکل میری شکل کے مشابہ ہے تو مجھے اس کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب میں نے آوارہ گردی شروع کررکھی تھی۔ طبیعت ہر وقت اچاٹ اچاٹ سی رہتی تھی۔ ایک عجیب قسم کی کھدبد ہر وقت دل و دماغ میں ہوتی رہتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ جو چیز بھی سامنے آجائے اسے چکھوں، خواہ وہ انتہا درجے کی کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔تکیوں میں جاتا تھا، قبرستانوں میں جاتا تھا، جلیاں والا باغ میں گھنٹوں کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر کسی ایسے انقلاب کے خواب دیکھتا تھا جو چشم زدن میں انگریزوں کی حکومت کا تختہ الٹ دے۔ اسکولوں کو جاتی ہوئی لڑکیوں کے جھرمٹ دیکھتا تھا اور ان میں سے کوئی اچھی سی لڑکی منتخب کرکے اس سے عشق لڑانے کے منصوبے تیارکرتا تھا۔ بم بنانے کے نسخے حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ بڑے بڑے گویوں کے گانے سنتا تھا اور کلاسیکل موسیقی کو سمجھنے کے لیے پیچ و تاب کھاتا تھا۔
میں نے اس زمانے میں شعر کہنے کی بھی کوشش کی۔ فرضی معشوقوں کے نام عطر لگا کر کاغذوں پر بڑے بڑے طویل محبت نامے بھی لکھے مگر بکواس سمجھ کر پھاڑ دیے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر چرس کے سگریٹ پیے، کوکین کھائی، شراب پی مگر جی کی بے کلی دور نہ ہوئی۔شدید آوارگی کے اسی دور میں مجھے رفیق غزنوی سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ میں نے تکیوں میں، شراب خانوں میں اور رنڈیوں کے کوٹھوں پر جا جا کر پوچھا کہ رفیق غزنوی کہاں ہے مگرکسی نے اس کا ٹھور ٹھکانہ نہ بتایا۔ کئی بار سننے میں آیا کہ وہ امرتسر میں آیا ہوا ہے۔ میں نے ہر بار بڑی مستعدی سے اس کو ڈھونڈا مگر اس کا نشان نہ ملا۔
ایک دن پتہ چلا کہ وہ اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ اس کا یہ دوست ایک درزی تھا (میں اس کا نام بھول گیا ہوں) اس کی بیٹھک ہمارے گھرکے پاس کرموں ڈیوڑھی کی ایک گلی میں تھی، جہاں وہ کام کرتا تھا۔ میں نے رفیق کو یہاں تلاش کیا، معلوم ہوا کہ وہ شہر کے باہر ایک غیر آباد سے علاقے میں مقیم ہے جہاں اس درزی کا گھر تھا۔ یہ پتہ مجھے بالے نے دیا۔ وہ بھی وہیں جارہا تھا۔ موقع بڑا اچھا تھا چنانچہ میں اس کے ساتھ ہولیا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہاں بالے کا تعارف کرادوں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ لوگ اسے بالا کنجر کہتے تھے۔ معلوم نہیں انسانوں کے ساتھ ان کے آباو اجداد کی ذات کیوں منسوب کردی جاتی ہے۔ بالا جیسا کہ میں جانتا ہوں نہایت خوش ذوق نوجوان تھا۔ تعلیم یافتہ، خوبصورت ، ہنسوڑ، بذلہ سنج، شاعر مزاج۔ اس کی طبیعت میں وہ جوہر تھا جو کسی بھی انسان کو فن کی بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔
اس کو معلوم تھا کہ لوگ اسے کس نام سے یاد کرتے ہیں لیکن اس کو اس کی کوئی پروانہیں تھی۔ وہ رہتا سہتا وہیں تھا جہاں عورتیں اپنا جسم بیچتی ہیں۔ اب وہ کراچی میں رہتا ہے اوراپنا فن بیچتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ایک اخبار کے ذریعے سے معلوم ہوا کہ وہ ایک مشہور مصور ہے جس کی تصویروں کی نمائش اہل نظر حضرات میں بہت مقبول ہوئی۔
بالا گاتا بھی تھا مگر اس کی آواز بھدی تھی۔ کیپٹن وحید، انور پینٹر، عاشق علی فوٹو گرافر، شاعر فقیر حسین سلیس، گیانی اروڑ سنگھ دنداں ساز، ان سب کی ایک بوہیمانہ قسم کی ٹولی تھی۔ ان کا بیٹھنا اٹھنا زیادہ تر انور پینٹر کی یا گیانی اروڑ سنگھ کی دکان میں ہوتا تھا۔ یا ان کی نشست جیجے (عزیز) کے ہوٹل شیراز اور اس درزی کی بیٹھک ہوتی تھی جس کا نام میں بھول گیا ہوں۔
بھنگ گھوٹی یا گوشت میں بھونی جاتی تھی اور طبلے کی تھاپ پر راگ راگنیاں، ٹھمریاں، د ادرے الاپے جاتے تھے۔ عاشق علی فوٹو گرافر کی آواز سریلی لیکن بہت پتلی تھی۔ وہ اکثر رفیق کی بحروں میں گاتا تھا۔ کیپٹن وحید طبلہ بجاتا تھا۔ انور پینٹر صرف داد دیتا تھا۔ گیانی اروڑ سنگھ دانت اکھیڑنا بھول کر خان صاحب عاشق علی خان (تان کپتان خان فتح علی خان کے فرزند) کی گمبھیر اور بالشت بھر چوڑی آواز میں اکثر پہاڑی سنایا کرتا تھا اور بالا صرف لطیفے۔ کبھی کبھی اپنی تازہ غزل۔ مجھے اس کی ایک غزل کا صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے
اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا
نوک سی چبھ گئی ہے چھالے میں
ہالے میں، شوالے میں، اجالے میں وغیرہ وغیرہ، اچھی غزل تھی۔
گیانی اروڑ سنگھ کا اچھا بھلا کام چل رہا تھا مگر جسے آرٹ کی چاٹ پڑ جائے، اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ راگ کی دنیا میں وہ ایسا کھویا کہ دندان ساز کی دکان معہ جملہ ساز و سامان کے غائب ہوگئی۔ انور پینٹر کا بھی دیوالیہ پٹ گیا۔ عاشق علی فوٹر گرافر کا بھی یہی حال ہوا ہے ۔چنانچہ ایک دن امرتسر سے ایسا غائب ہوا کہ ابھی تک لاپتہ ہے۔ جیجے (عزیز) کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اب وہ لاہور میں مطب کرتا ہے۔ شاعر فقیر حسین سلیس صابن بنا رہا ہے۔گیانی اروڑ سنگھ کامیاب ایکٹر بنا، مگر اب سنا ہے کہ اس نے دنیا تیاگ دی ہے اور خدا سے لو لگائے بیٹھا ہے۔ کیپٹن وحید نے پانچ بچوں والی ایک عور ت سے شادی کرلی۔ آج کل ٹھیکےداری کرتا ہے۔رفیق غزنوی جس رنگ میں پہلے تھا، اسی میں ہے۔ کراچی میں ریس کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور فلموں میں موسیقی بھرتا ہے۔
بڑی مصیبت ہے، میں نے جب بھی ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا ،جو پرانی یادوں کے متعلق ہوں تو ہمیشہ بہک گیا۔ اب دیکھیے میں بات رفیق غزنوی سے ملنے کی کوشش کی کررہا تھا اور چلا گیا فروعات میں۔۔۔ لیکن سچ پوچھیے تو مجھے فروعات ہی سے محبت ہے، میں زندگی کو بھی ایک فروعی چیز سمجھتا ہوں۔
ہاں جناب، تو میں بالے کے ساتھ ہو لیا۔ اپریل کی خنک رات تھی۔ تانگہ دیر تک چلتا رہا۔ آخر بالے نے ایک نیم تاریک مقام پر اسے ٹھہرایا۔ آج سے تیئس چوبیس برس پہلے کی بات ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس ایک منزلہ مکان میں ہم داخل ہوئے، وہ پیڑوں سے اور جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ اندر لالٹین جل رہی تھی، میدھا موٹا اور وہ درزی جس کا نام میں بھول گیا ہوں، اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھے فلش کھیلنے اور شراب پینے میں مشغول تھے۔
مجھے میدھے موٹے سے سخت نفرت تھی۔ اول تو یہ کہ وہ بہت موٹا اور بہت طاقتور تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ زبردستی مجھے فلش کھیلنے کو کہتا اور پتے بازی کرکے مجھ پر آٹھ دس ہزار روپے کا قرض چڑھا دیتا اور دوسرے تیسرے روز مجھے کسی بازار یا گلی میں پکڑتا اور اپنا خوف ناک چاقو دکھاکر اسے وصول کرلیتا۔
بالے نے درزی سے رفیق کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ دو روز سے غائب ہے۔ کہاں ہے یا ہو سکتا ہے اس کے متعلق اسے علم نہیں تھا۔ درزی نے کہا، بالے، تمہیں معلوم ہی ہے، جب وہ کسی کوٹھے پر چڑھتا ہے، پندرہ دن کے بعد ہی نیچے اترتا ہے۔بالا مسکرا دیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کو اچھی طرح معلوم ہے۔ میری یہ کوشش بھی بے کار گئی۔ غالباً ایک برس کے بعد میں نے اس کا فوٹو عاشق علی کے ڈارک روم کی ایک ڈش میں پانی پر تیرتا ہوا دیکھا۔ عاشق علی بہت اچھا فوٹو گرافر تھا۔ غالباً وہ پہلا شخص تھا جس نے فوٹو گرافی کے قدیم اصولوں کی خلاف ورزی کی۔
عام طور پرفوٹو گرافر یہ کرتے تھے کہ اپنے گاہک کو خوش کرنے کے لیے اس کے چہرے کی وہ تمام لکیریں دور کردیتے تھے جو انسان میں اس کے کردار اور تشخص کی مظہر ہوتی ہیں۔ وہ اس کے چہرے کو چھلا ہوا آلو سا بنا دیتے تھے جس پر کوئی داغ دھبہ ہو نہ کوئی سلوٹ لکیر۔ عاشق علی کہتا تھا، فوٹو گرافر کا کام یہ ہے کہ انسان کو اس طرح پیش کرے جس طرح کہ وہ اسے دیکھتا ہے۔ کیمرے کا کام صرف عکس لینا ہے اور بس۔
عاشق علی روشنی اور سایوں کے امتزاج کا خاص خیال رکھتا ہے۔ رفیق کی جو تصویر میں نے دیکھی،میرا خیال ہے وہ عاشق علی کا شاہکار تھی۔ رفیق نے عربوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کا لمبوترہ چہرہ بہت پرکشش تھا۔ سائے زیادہ تھے اور روشنیاں کم۔ خدوخال تیکھے اور نوکیلے نہیں تھے مگر جاذب نظر تھے۔ بڑی وجیہہ شکل و صورت تھی۔ ناک لمبی جو پھننگ کے قریب چوڑی ہوگئی تھی۔ ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست۔ ان کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی تکونیں۔ بال پیچھے کی طرف کنگھی کیے ہوئے۔ لمبی قلمیں۔۔۔ مجھے اس میں اور اپنے میں کوئی مماثلت نظر نہ آئی۔ معلوم نہیں اس پان والے کو مجھ پر اس کا دھوکا کیسے ہوگیا۔
عاشق علی نے مجھے بتایا کہ رفیق پرسوں آیا تھا اور اسی روز شام کوواپس لاہور چلا گیا۔ میں لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ راولپنڈی میں ہے۔۔۔ اب راولپنڈی کون جاتا۔ میں واپس امرتسر چلا آیا۔ آٹھویں روز پتہ چلا کہ وہ امرتسر ہی میں ایک طوائف کے مکان پر نظر بند تھا۔۔۔ میں جھنجھلا گیا۔
کئی برس گزر گیے مگررفیق غزنوی سے ملاقات کی کوئی سبیل پیدا نہ ہوئی۔ میں یوں بھی تھک ہار کر اس کو تلاش کرنے کی سرگرمی ترک کر چکا تھا۔ اس دوران میں البتہ یہ معلوم ہوتا رہا کہ وہ کٹرہ گھٹیاں کی قریب قریب تمام مشہور طوائفوں کو سرفراز کرچکا ہے۔
رفیق کی اپنے مخصوص طرز میں گائی ہوئی غزلیں ہر کوٹھے پر گائی جاتی تھیں۔ یہ کیا ہے جی۔۔۔؟ رفیق کی بحر ہے۔ یہ کیا انداز ہے سرکار۔۔۔؟ حضور رفیق غزنوی کا۔ یہ چکنا چور گھڑی رفیق صاحب کی ہے۔ کل انہوں نے تان جولی تو زور سے ہاتھ لہرایا۔ کلائی دیوار کے ساتھ ٹکرائی اور گھڑی کے ہزار ٹکڑے۔ پرسوں رفیق غزنوی ایک رنڈی کے کوٹھے پر گانا سنانے لگا۔ ساز سر میں کیے گیے۔ رفیق نے طبلے والے سے کہا تم بھی کروسر میں اپنے طبلے۔ طبلچی نے کہا، میں کر چکا ہوں۔ رفیق نے کہا، دوبارہ کرو۔۔۔ دائیں پر ابھی ابھی ایک مکھی بیٹھ گئی تھی۔ لعنت ہے اس مکھی پر اور لعنت ہے رفیق غزنوی پر۔
ان دنوں یہ غزل عام طور پررفیق کی بحر میں گائی جاتی تھی۔ دیکھیے حافظے پر زور دے کر اس کا کوئی شعر یاد کرتا ہوں۔۔۔ نہیں یاد آ رہا۔ کچھ ایسا ہی تھا۔
سو رہے ہیں پاسباں یار ہے خواب ناز میں
اور خدا معلوم کیا۔
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
شاید اقبال کی کوئی غزل تھی۔ معاف کیجئے گا میرا حافظہ بہت کمزور ہے۔
اس کے بعد معلوم ہوا کہ اے آر کاردار لاہور میں پنجاب کا پہلا متکلم فلم ’’ہیررانجھا‘‘ بنا رہا ہے اور رفیق اس کا ہیرو ہے یعنی رانجھا۔ ہیروئن امرتسر کی ایک طوائف انوری ہے (یہ آج کل ریڈیوپاکستان کے ڈپٹی ڈ ائریکٹر جناب احمد سلمان سابق جگل کشور مہرہ کی بیگم ہیں) قیدو کا پارٹ ایم اسماعیل کو دیا گیا ہے۔
فلم بن گیا مگر میں لاہور نہ جاسکا ،معلوم نہیں کیوں۔ اس دوران میں مختلف افواہیں سننے میں آتی رہیں۔ کاردار کا رفیق سے جھگڑا ہوگیا ہے۔ رفیق، انوری سے رومان لڑا رہا ہے۔ انوری کی ماں سخت برہم ہے، ضرور ایک روز چاقو چھری چلیں گے۔۔۔ لیکن ایک دن یہ خبر آئی کہ رفیق انوری کو ڈرامائی انداز میں لے اڑا ہے۔
یہ خبر سچی تھی۔ واقعی وہ انوری کو لے اڑا تھا۔ انوری کی ماں بہت چیخی چلائی تھی۔ رفیق کے پیچھے غنڈے بھی لگائے گیےتھے مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور شربت وصال، وسکی کے ساتھ ملا ملا کر پیتا رہا۔ آخر اس نے انوری کو اس کی ماں کے پاس امرتسر روانہ کردیا۔ ان فاتحانہ مگر نہایت تکلیف دہ الفاظ کے ساتھ، ’’لو سنبھال لو اپنی سنڈکی پڑی کو۔‘‘
وہ بے چاری اب اپنی ’’سنڈ کی پڑی‘‘ کو کیا سنبھال کے رکھتی۔ جس دن کے لیے اس نے اسے سنبھال سنبھال کے رکھا ہوا تھا، اس پر تو رفیق غاصبانہ قبضہ کر چکا تھا، کرچکا تھا کیا، کرکے فارغ کر چکا تھا۔ چنانچہ اس نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ یہ ’’پڑی‘‘ دوسرے لفظوں میں اپنی’کڑی‘ غیر مشروط طور پر رفیق غزنوی کے حوالے کردے۔
رفیق غزنوی کا حسن و عشق کے سومنات پر یہ پہلا معرکہ آرا حملہ ہے۔ انوری کے بطن اوررفیق کے نطفے سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام زرینہ رکھا گیا۔ (جو نسرین کے فلمی نام سے اے آر کاردار ہی کے فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں روحی کے روپ میں جلوہ گر ہوئی، حال ہی میں ریڈیو پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل جناب احمد سلمان سابق جنگل کشور مہرہ کی دختر نیک اختر کی حیثیت سے اس کا نکاح کراچی میں صاحب ثروت سے ہوا ہے)۔
کئی اور برس گزر گئے۔۔۔ اس دوران میں کن کن مراحل سے مجھے گزرنا پڑ، اس کا ذکر مناسب معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ اس مضمون کا موضوع صرف رفیق غزنوی کی ذات ہے۔
میں بمبئے پہنچ گیا، وہاں بہت دیر تک اخباروں میں جھک مارتا رہا۔ اس دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ رفیق نے انوری کو چھوڑ دیا ہے اور اب کلکتے میں ہے جہاں وہ فلموں کے لیے موسیقی مرتب کرتا ہے۔
میں لکھنا شروع کر چکا تھا۔ ادبی حلقوں سے میرا تعارف بھی ہوگیا تھا اس لیے اردو ادب سے دلچسپی لینے والے مجھے جاننے لگے تھے۔ دیر تک اخباروں میں جھک مارنے کے بعد میں فلمی دنیا میں داخل ہوا۔ یہاں بھی ایک دو برس جھک مارنا پڑی۔ اپنے لیے کوئی مقام پیدا کرتےکرتے میں ہندوستان سنے ٹون پہنچ گیا جس کے مالک سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی تھے۔ آپ نے کئی فلم کمپنیاں قائم کیں، ان کا دیوالہ نکالا۔ اب انہوں نے ہندوستان سنے ٹون کے نام سے ایک نئی فلم کمپنی قائم کی تھی جس کے قیام کے ساتھ ہی دیوالےکے آثار نظر آنے لگے تھے۔
میں نے اس کمپنی کے لیے ’’مڈ‘‘ یعنی ’’کیچڑ‘‘ کے عنوان سے ایک کہانی لکھی جو بہت پسند کی گئی۔ یہ اشتراکی خیالوں پر استوارکی گئی تھی۔ مجھے حیرت ہے، اس زمانے میں سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی نے اسے کیوں پسند کیا۔ میں مکالمے لکھنے میں مصروف تھا کہ مجھ سے کسی نے کہا کہ رفیق غزنوی اسٹوڈیو میں موجود ہے اور تم سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلا سوال جو میرے دماغ میں پیدا ہوا تھا کہ وہ مجھے کیسے جانتا ہے۔ میں کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لم تڑنگ آدمی بہت عمدہ سِلے ہوئے سوٹ میں نمودار ہوا۔۔۔ یہ رفیق غزنوی تھا۔
اس نے کمرے میں اندر داخل ہوتے ہی مجھے موٹی گالی دی اور کہا، ’’تم یہاں چھپے بیٹھے ہو۔‘‘
اسی لمحے۔۔۔ اسی ثانیے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں رفیق غزنوی کو ازل سے جانتا ہوں۔ چنانچہ ہم دیر تک ادھر ادھر کی باتیں بڑے بے تکلف انداز میں کرتے رہے۔
اس کے لب و لہجے، اس کی حرکات و سکنات میں ایک عجب سطحی قسم کا لاابالیانہ پن تھا۔۔۔ جو تصویر میں نے عاشق علی فوٹو گرافر کے ڈارک روم میں ڈش کے اندر پانی میں ڈبکیاں لگاتی دیکھی تھی۔ اس میں اور گوشت پوست کے رفیق غزنوی میں یہ فرق تھا کہ وہ گنگ تھی اور یہ متکلم۔ لیکن اس کے تکلم کا انداز اس پر سجتا تھا۔ اگر اس کے ہونٹ نہ کھلتے، اگر کھلتے تو بے ہنگم طریق پر نہ کھلتے جو اس کے بھدے دانتوں اور مسوڑوں کی بے وجہ نمائش کرتے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اگر اس کی گفتگو میں بازاریت کا رنگ نہ ہوتا تو میں شاید اس کے بھدے دانتوں اور مسوڑوں کو بھی برداشت کرلیتا مگر معاملہ اس کے برعکس تھا۔
اس کے ہاتھ نچانے کا انداز بھی مجھے پسند نہ آیا۔ مجھے یہ محسوس ہوتا کہ وہ جس سے مخاطب ہے، بڑے ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ احساس ظاہر ہے کہ میرے لیے خوشگوار نہیں تھا ۔بہر حال چونکہ پہلی ملاقات تھی اور وہ بھی اتنے اشتیاق کے بعد۔ میں نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا گہرا اثر نہ لیا۔
جب رفیق جانے لگا تو اس نے مجھے بتایاکہ وہ بمبے سنٹرل اسٹیشن کے سامنے ایک ہوٹل میں (جس کا نام میں بھول گیا ہوں) ٹھہرا ہے۔ وہ بڑی بے سرو سامانی کی حالت میں کلکتے سے آیا تھا،اس کو امید تھی کہ بمبئی میں اسے کام مل جائے گا۔
چونکہ اس نے مجھے مدعو کیا تھا اس لیے میں شام کو اس ہوٹل میں پہنچا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کا کمرہ مل گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے مجھے ایک کونے میں قالین کے ایک ٹکڑے پر وچترونیا نظر آئی جو ریشمی کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے دوسرے کونے میں رفیق کے شو اور جوتے تھے جو بڑے سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ پھرمجھے ایک عورت نظر آئی جس کے طوائف ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا۔ یہ زہرہ تھی (جو اب زہرہ مرزا ہے، مرزا صاحب کسی زمانے میں فلم ڈائریکٹر تھے، اب پندرہ سولہ برس سے وہ فلم کمپنی کھولنے کی کوشش میں مصروف ہیں)
زہرہ کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک لڑکا، ایک لڑکی۔ لڑکا چھوٹا تھا، لڑکی بڑی جس کا نام پروین تھا (یہ فلمی دنیا میں شاہینہ کے نام سے داخل ہوئی۔ پہلا فلم ’’بیلی‘‘ تھا جس کی کہانی میری تھی۔ یہ بہت بری طرح ناکام ہوئی) اس کی عمر اس وقت پانچ برس کی ہوگی۔
دیکھیے، میں لکھتے لکھتے واقعات کی رو میں ایسا بہا کہ آپ کو یہ بات بتانا بھول ہی گیا کہ جب میں فلمی دنیا میں داخل ہوا یعنی جب میں نے امپریل فلم کمپنی میں بطور’’منشی‘‘ ملازمت کی تو اس زمانے میں دو نوجوان لڑکیاں لائی گئیں۔ ایک دبلی تھی، دوسری موٹی۔ (یہ زہرہ کی چھوٹی بہنیں تھیں شیداں اور ہیراں)
شیداں بلا کی چنچل تھی۔ بوٹی بوٹی پڑی ناچتی تھی۔ ناک نقشہ اچھا لیکن بہت تیز بولتی تھی، اتنی تیز کہ ایک لفظ دوسرے لفظ پر سوار ہو جاتا۔ مجھے اس سے گفتگو کرتے وقت بہت الجھن ہوتی تھی۔ اسی سے مجھے معلوم ہوا کہ پھیکو بھائی جان (رفیق غزنوی) انوری کو چھوڑ چکا ہے اور اس نے بڑی بہن زہرہ سے بیاہ کرلیا ہے۔ہیراں موٹی اور پھسپھسی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلموں میں نہ چل سکی۔ شیداں کو امپریل کی رنگین فلم ’’ہندوماتا‘‘ میں کام مل گیا جو کامیاب رہی۔
میں آپ کو ایک دلچسپ لطیفہ سناتا ہوں۔ ایک روز میں کسی کام سے امپریل فلم کمپنی کے مالک سیٹھ آرڈیشر ایرانی سے ملنے گیا۔ دفتر کاسونگ ڈور،کھولتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سیٹھ بڑے اطمینان سے شیداں کا ایک پستان یوں دبا رہے ہیں جیسے کسی موٹر کار کا ہارن۔۔۔ میں الٹے پاؤں واپس چلا آیا۔
اب میں پھرزہرہ کی لڑکی پروین کی طرف آتا ہوں۔ اس کی آنکھیں نیلی تھیں جس طرح زرینہ المعروف نسرین کی ہیں۔ رفیق کی آنکھیں نیلی نہیں ہیں۔ انوری اور زہرہ کی بھی نہیں اور یہ دونوں بالترتیب زرینہ اور شاہینہ کی مائیں ہیں۔ اصل میں آنکھوں کا یہ نیلا پن ان لڑکیوں کو ان کی دادی سے ملا ہے۔ ان کی آنکھیں یہ بڑی بڑی اور نیلگوں تھیں۔ قد کاٹھ کی بہت تگڑی تھی مگر چنیا بیگم کی رسیا۔
خیر۔۔۔ رفیق مجھ سے ملا۔ میں کمرے کا جائزہ لیتے ہی بھانپ گیا تھا کہ وہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں یہاں آیا ہے اور تلاشِ روزگار میں سرگرداں۔
میں یہاں آپ کو رفیق کی عجیب وغریب شخصیت کا ایک عجیب و غریب پہلو دکھانا چاہتا ہوں۔ جب اس پر بمبئی کی زبان میں کڑکی یعنی مفلسی کا زمانہ آتا ہے تو وہ بہترین لباس پہنتا ہے۔ جب وہ دور گزر جاتا ہے تو وہ معمولی کپڑے پہننے لگتا ہے۔۔۔ یوں وہ ہر لباس میں بانکا سجیلا نظر آتا ہے۔ اس کو ہر لباس پہننے کا سلیقہ ہے۔ ہوٹل کے کمرے میں ہم تھوڑی دیر رہے۔ اس کے بعد باغیچے میں چلے گئے۔ میں وسکی کی بوتل اپنے ساتھ لایا تھا، چنانچہ ہم دیر تک پیتے اور باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں ایک دلچسپ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔
ہم پی رہے تھے کہ ایک بھرے بھرے جسم اور اچھے خاصے ڈیل ڈول کی عورت آئی۔ اس نے رفیق کی طرف اپنی چندھی آنکھوں سے دیکھا اور مسکرا کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ رفیق نے اس کو گلاس پیش کیا جواس نے لے لیا۔ اس کے بعد رفیق نے میرا اس سے تعارف کرایا۔وہ کوئی فلم زدہ عورت نہیں تھی۔ میں عورت ہی کہوں گا اس لیے کہ وہ لڑکپن کے حدود سے بہت آگے نکل چکی تھی۔رفیق نے مجھے بتایا کہ وہ سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور کافی مالدار ہے۔ بمبئی صرف اس لئے آئی ہے کہ اشوک کمار کے صرف ایک بار درشن ہو جائیں۔ میں نے اس سے کہا۔ سالی چھوڑ اشوک کمار کو۔ اپنا ڈیل ڈول دیکھ۔ تمہاری چھاتی پر اگر اشوک کمارکو بٹھا دوں تو ایسا معلوم ہوگا کہ طوطا توپ چلا رہا ہے۔
ضلع جگت پھبتی رفیق کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ یہ اس کی طبیعت بن چکا ہے۔ وہ سکھنی ( جس کا نام میں بھول گیا ہوں) یہ پھبتی سن کر خاموش رہی لیکن رفیق نے بڑے زور کا قہقہہ بلند کیا اور دیر تک ہنستا رہا۔یہ بھی اس کی عادت ہے کہ پھبتی کہے گا، چست ہو یا پھسپھسی، کوئی د اد دے نہ دے لیکن وہ خود اپنے آپ کو خوب داد دے گا۔ اتنا ہنسے گا، اتناشور مچائے گا کہ مجبوراً آپ کو بھی اس غل غپاڑے میں شریک ہونا پڑے گا۔
سکھنی معمولی شکل و صورت کی تھی، موٹے موٹے نقش، بہت ہی تنگ ماتھا، مرد نما۔ رفیق اس سے باتیں کررہا تھا مگر مجھے احساس تھا کہ اسے اس عورت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کی باتیں محض برائے باتیں تھیں۔ وہ اس پر یہ ظاہر کررہا تھا کہ وہ اس سے جسمانی رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے مگر اس کے دل و دماغ پر اشوک کمار سوار تھا۔ رفیق نے جب زور دیا تو وہ ٹھیٹ دیہاتی سکھنیوں کے انداز میں جھنجھلا کر بولی، ’’سن لے رفیق، میں کتوں۔۔۔‘‘
رفیق نے فوراً اسے ٹوکا، ’’بس بس بس۔۔۔ تم نہیں جانتی ہو، میں بہت بڑا کتا ہوں بڑی اعلیٰ نسل کا۔‘‘
نسل وسل کے متعلق میں کچھ نہیں جانتا لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ رفیق غزنوی واقعی بہت بڑا کتا ہے جس کی دم صرف طوائفیں ہی ہلا سکتی ہیں، کوئی شریف خاتون لاکھ پچکارے، چمکارے اس کی دم میں خفیف سی بھی جنبش پیدا نہیں ہوگی۔
یہ میری اس کی پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے۔ میں یہاں اس کے کردار کا ایک اور پہلو واضح کردوں کہ وہ اول درجے کا کمینہ، سفلہ اور خود غرض ہے۔ اپنی ذات اس کے لیے سب سے مقدم ہے۔ وہ کھانا جانتا ہے، کھلانا نہیں جانتا لیکن مطلب ہوگا تو وہ بڑی پرتکلف دعوتیں بھی کرے گا مگر ان دعوتوں میں بھی وہ مہمانوں کا کچھ خیال نہ کرتے ہوئے سب سے پہلے مرغ کے بہترین حصے اپنی پلیٹ میں ڈال لے گا۔
وہ دوستوں کو بہت کم سگریٹ پیش کرتا ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جب مجھے بڑی خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اسٹوڈیو میں اس سے ملاقات ہوئی۔ جنگ کا زمانہ تھا، سگریٹوں کے تمام اچھے برانڈ بلیک مارکیٹ میں بکتے تھے۔ میں نے اس کے ہاتھ میں ’کریون اے‘ کا ڈبہ دیکھا۔ یہ میرے مرغوب سگریٹ ہیں۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ڈبہ پکڑنا چاہا مگر اس نے اپنا ہاتھ جھٹک کر ایک طرف کرلیا۔ میں نے کہا، ’’ایک سگریٹ دینا یار۔‘‘ رفیق نے پیچھے ہٹ کر ڈبہ اپنی جیب میں ڈال لیا، ’’نہیں منٹو۔۔۔ اولاً میں اپنا سگریٹ کسی کو دیا نہیں کرتا۔ ثانیاً یہ سگریٹ اعلیٰ درجے کے ہیں۔تمہاری عادت بگڑ جائے گی۔ تم اپنے گولڈ فلیک پیا کرو۔‘‘
میرے جاننے والے تین چار آدمی پاس کھڑے تھے۔ میں پانی پانی ہوگیا، سمجھ میں نہ آیا کیا کہوں اور کیا کروں۔ ناچار کھسیانا ہو کر اپنی ٹانگ نوچنا شروع کردی۔رفیق پرلے درجے کا بے غیرت، کہنے کو تو پٹھان ہے لیکن غیور قطعاً نہیں۔ سنا ہے کہ پہلے اس کا سلسلہ زہرہ کی ماں سے تھا۔ اس کے بعد اس کی بڑی لڑکی مشتری سے ہوا۔ پھر زہرہ کی باری آئی، آخر میں شیداں کی۔مجھے معلوم نہیں شیداں سے اس کا ٹانکا کیسے ملا۔ اتنا یاد ہے وہ ان دنوں ماہم میں رہتا تھا۔ اینکلیٹومینشن کی بالائی منزل پر اس کا فلیٹ تھا۔ اس کے سامنے میری بہن رہتی تھی۔
میری شادی ہو چکی تھی اور میں اڈلفی چیمبرز، کلیئر روڈ میں مقیم تھا۔ رفیق کا ہمارے یہاں آنا جانا تھا۔ ریڈیو اسٹیشن پر بھی ہماری اکثر ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک روز وہ اپنا پروگرام ختم کرکے اسٹوڈیو سے باہر نکلا تو بڑی افراتفری میں تھا۔ دیر کے بعد ملا تھا اس لیے میں نے پوچھا، ’’سناؤ رفیق کیا ہورہاہے آج کل۔‘‘
اس نے جواب دیا، ’’عشق ہورہے ہیں۔۔۔ دبلے ہو رہے ہیں۔‘‘ واقعی عشق ہورہے تھے کیوں کہ ایک دن معلوم ہوا کہ زہرہ کی چھوٹی بہن خورشید (شیداں) نے افیم کھالی ہے۔ (زہرہ بھی چنیا بیگم کی عاشق ہے) دونوں بہنوں میں زبردست چخ ہوئی تھی۔ زہرہ کو سخت ناگوار گزرا تھا کہ شیداں اس کے خاوند کو اس سے چھین رہی ہے۔ الھڑ جوان شیداں جس کو معلوم نہیں اس کا پھیکو بھائی جان اسے محبت کے کتنے جام پلا چکا تھا، سر سے پیر تک نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ جو کہتے ہیں عشق اور جنگ میں ہر ایک چیز جائز ہے، خود کو حق بجانب سمجھتی تھی اور پھر خود رفیق اس کی طرف مائل تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کی بڑی بہن معترض کیوں ہے۔۔۔ چخ زبردست لڑائی کی شکل اختیارکرگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شیداں نے زہرہ کی افیم اڑاکر نگل لی تاکہ عشق کی راہ میں اپنی جان دے دے۔ لیکن جس کو اللہ رکھے اسے کون چکھے؟ وہ شہادت کا رتبہ حاصل کرتے کرتے بچ گئی اور اس حادثے کا انجام بخیریوں ہوا کہ رفیق، زہرہ کے دل کا مکان خالی کرکے شیداں کے دل کی نئی کوٹھی میں اقامت پذیر ہوگیا۔
سنا ہے کہ تعطیلوں میں وہ کبھی کبھی شیداں کی موٹی بہن ہیراں کے دل کے ڈاک بنگلے میں بھی ٹھہر جایا کرتا تھا۔۔۔ رہے نام اللہ اور اس کے ایک ناچیز بندے رفیق غزنوی کا۔
جب رفیق کا عشق زوروں پرتھا، اس زمانے میں لیڈی جمشید جی روڈ ماہم کے گلشن محل میں لاہور کے ایک لالہ جی آکے ٹھہرے۔ آپ کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی زیب النساء تھی۔ لالہ جیب عجیب و غریب آدمی تھے۔ آگ لگانے کو بھی روپیہ کافی تھا۔ ان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ ان کی زیب پسِ پردہ کیا کرتی ہے، کیا نہیں کرتی۔ وہ اپنے چغدپنے میں مست رہنا چاہتے تھے۔ رفیق دو ایک مرتبہ لالہ جی سے ملنے آیا تو اس کی آنکھ زیب سے لڑ گئی۔ لڑکی سادہ لوح تھی۔ غریب نے گھرکی سب اچھی چادریں، غلاف، دریاں وغیرہ رفیق کے حوالے کردیں۔ اس کو کھاتی پلاتی بھی رہی لیکن رفیق بہت جلد اس سے اکتا گیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، ’’بڑی شریف عورت ہے۔۔۔ مجھے لطف نہیں آتا۔‘‘
رفیق کو عورت میں شرافت بہت بری طرح کَھلتی ہے معلوم نہیں کیوں۔یہی ہو سکتا ہے کہ اس کا واسطہ چونکہ شروع ہی سے ایک ایسے طبقے کی عورتوں سے پڑا تھا، فحش کلامی اور جگت بازی جن کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے، جو سستے اور بازاری قسم کے مذاق کرتی ہیں اور ایسے ہی ہنسی ٹھٹھے کی دوسروں سے توقع کرتی ہیں اس لیے رفیق کے لیے شریف خواتین میں کوئی کشش نہیں تھی۔۔۔ اس کی جسمانی حسیات کو بیوی پنا بیدار نہیں کرسکتا تھا۔کہنے کو تو وہ ہر اس طوائف کا شوہر تھا جو اس کی ’نیم بائرانہ‘ زندگی میں آئی لیکن در حقیقت وہ اس کا گاہک تھا۔۔۔ عام گاہک نہیں۔۔۔ خاص گاہک ( جو طوائف سے لیتا ہے، اس کو دیتا نہیں) جیسا کہ رفیق اپنی ابتدائی زندگی میں تھا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ زندگی بھی رفیق کے نزدیک ایک طوائف ہے۔ وہ ہر رات اس کے ساتھ سوتا ہے۔ صبح اٹھتے ہی پہلے سانس کے ساتھ وہ اس سے جگت بازی شروع کردیتا ہے۔ اس کا گانا سنتا ہے، اپنا سناتا ہے، پھکڑ بازی ہوتی ہے اور یوں ایک دن ختم ہو جاتاہے۔
میں نے اس کو کبھی ملول نہیں دیکھا۔ وہ بے حیا ئی اور ڈھٹائی کی حد تک ہر وقت خوش رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تندرست ہے۔ اتنی عمر ہونے پر بھی آپ اسے معمر نہیں کہہ سکتے بلکہ جوں جوں اس کی عمر میں اضافہ ہورہا ہے وہ جوان ہوتا چلا جارہا ہے۔ مجھے کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر سو برس پورے ہونے پر ننھا منا بچہ بن جائے اور انگوٹھا چوسنا شروع کردے۔
وہ شیواجی پارک میں رہتا تھا۔ شیداں کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا۔ میں اور میری بیوی افسوس کرنے گیے تو ایک عجیب و غریب تماشا دیکھنے میں آیا۔
رفیق فرش پر قراقلی ٹوپی پہنے نماز پڑھنے کے انداز میں بیٹھا تھا۔ میں اندر داخل ہوا تو دوسرے کمرے سے زہرہ سیاہ ماتمی لباس میں نمودار ہوئی۔ بال کھلے تھے اور آنکھیں نمناک۔ اس کے ساتھ اس کا شوہر مرزا تھا جو رفیق کے لڑکے کی موت سے بہت متاثر دکھائی دیتا تھا۔ دوسرے کمرے میں شیداں کے رونے کی آواز آئی تو زہرہ لپک کر اندر گئی اور بلند آواز میں اس کو دلاسا دینے لگی۔ میں رفیق کے پاس مبہوت بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کیا مذاق ہے۔
رفیق کسی زمانے میں زہرہ کا خاوند تھا۔ اس کے بطن سے رفیق کے دو بچے تھے جو اس کمرے سے اس کمرے میں جاتے اور کبھی اس کمرے سے اس کمرے میں جاتے۔ رفیق اب زہرہ کی بہن شیداں کا شوہر ہے اور زہرہ کا مرزا۔ شیداں، زہرہ کی بہن تھی اور سوت بھی۔ رفیق کے بچے شیداں کے کیا لگتے تھے۔ بہن کے رشتے سے ظاہر ہے، پروین بھانجی اور محمود بھانجا اور شیداں کے جو مردہ لڑکا پیدا ہواوہ زہرہ کا بھانجا۔ پروین اور محمود کا رشتہ رفیق کے نطفے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مردہ لڑکے سے جو ہوا وہ ظاہر ہے۔۔۔ رفیق اور مرزا دونوں ایک دوسرے کے ہم زلف ہوئے۔۔۔ میں چکرا گیا لیکن رفیق نے بروقت مجھے اس الجھن سے نجات دی اور کہا، آؤ باہر چلیں۔ہم برآمدے میں پہنچے تو رفیق نے قراقلی اتار کر زور سے ایک طرف پھینکی اور سگریٹ سلگا کر کہا۔
’’درفِٹے منہ۔۔۔ غم کرتے کرتے چہرہ لمبوترا ہوگیا ہے۔‘‘ اور کھکھلا کرہنسنے لگا۔
عرصہ ہوا، میں بمبئے سے اپنے کسی مقدمے کے سلسلے میں لاہور آیا۔ ان دنوں رفیق بھی وہیں تھا۔ اس سے ملاقات سید سلامت اللہ شاہ کے نیلام گھر میں ہوئی۔ اللہ بخشے شاہ صاحب بڑے رنگیلے آدمی تھے۔ میں نے ان سے رفیق کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اندر کمرے میں ہے اور بہت خوش ہے۔
معلوم ہوا کہ وہ امرتسر میں اپنی بیٹی زرینہ المعروف نسرین (انوری کے بطن سے) سے ملاقات کرکے آیا ہے۔ رفیق نے اس کا بچپن دیکھا تھا۔ اس کی جوانی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اصل میں انوری نے کوئی ایسا موقع ہی نہیں آنے دیا تھا کہ نسرین اپنے باپ کو دیکھ سکتی۔ اس سے یہی کہا گیا تھا کہ وہ بہت بدصورت اور بدمعاش ہے۔
رفیق کے دوستوں نے مل جل کر منصوبہ بنایا اور باپ بیٹی کی ملاقات کا انتظام کردیا۔ رفیق امرتسر پہنچا اور زرینہ سے ملا۔ رفیق نے مجھ سے کہا، ’’منٹو۔۔۔ سروقد، بے حد خوب صورت، جوانی سے بھرپور، میں نے جب اسے بازوؤں میں بھینچا تو خدا کی قسم مزا آگیا۔‘‘
میں اس کے ان الفاظ پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
رفیق نے مجھے بتایا کہ وہ رخصت ہونے ہی والا تھا کہ انوری آن ٹپکی۔ ہلکی سی چخ ہوئی۔ رفیق نے اس سے کہا، ’’خاموش رہ انوری۔۔۔ شکریہ ادا کر کہ تجھے ایک سونے کی کان کا مالک بنا دیا ہے میں نے۔‘‘
معلوم نہیں رفیق نے ایسی سونے کی کانیں کس کس کو عطا کی تھیں۔ روزِ محشر جب کھدائی ہوگی، اسی وقت پتہ چل سکے گا۔ ویسے رفیق نے ایک بار مجھ سے کہا، ’’مجھے معلوم نہیں میرے بچے بچیوں کی تعداد کتنی ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ سب سے بڑا مردم شمار ہے۔‘‘
رفیق کی ایک’’سگی‘‘ بیوی بھی تھی یعنی سہرے جلوؤں کی بیاہی۔ یہ غریب شادی کے تین چار سال بعد ہی مر گئی۔ اس کے بطن سے ایک لڑکی ظاہرہ ہے جو پہلے فلم ڈائریکٹر ضیاسرحدی کی بیوی تھی اور اب طلاق لے کر کراچی میں اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے۔مجھے اس لڑکی کی زندگی کی قبل از وقت تباہی کا بہت افسوس ہے اور میں سمجھتا ہوں اس تباہی میں رفیق کا ہاتھ ہے اس لیے کہ وہ ہمیشہ اس کو اپنی زندگی کا سانچہ پیش کرتا تھا اور کہتا تھا، تم اس میں ڈھل جاؤ۔ یہ حقیقت اس کی آنکھوں سے معلوم نہیں کیوں اوجھل رہی؟
نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ وہ آج ایک عبرت انگیز خرابے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کی شادی کے متعلق بمبئے میں ایک جھگڑا سا پیدا ہوگیا تھا۔ وہ بھی رفیق کی غفلت کے باعث۔ اس کو دورکرنے کے لیے اس نے زہرہ سے کہا، ’’دیکھ پتر، تو نذیر لدھیانوی سے شادی نہیں کرنا چاہتی نہ کر۔۔۔ ضیا سرحدی سے کر۔تذبذب میں ہے تو دونوں سے کر۔ اگر یہ تمہیں دھوکا دے گیےتو کوئی فکر نہ کرنا۔۔۔ میں تیرا سب سے بڑا خاوند ہوں، تیرا باپ۔‘‘
نذیرلدھیانوی کو ظاہرہ نے دھوکا دیا، ظاہرہ کو ضیا سرحدی نے۔ اب وہ اپنے سب سے بڑے خاوند۔۔۔ اپنے باپ رفیق غزنوی کے پاس ہے۔ بیڑیاں پیتی ہے اور ان کی راکھ میں اپنی جوانی کی وہ تمام چلبلاہٹیں کرید کرید کر نکالنے کی ناکام کوشش کرتی ہے جو کوئی مستقل سنجیدہ شکل اختیار کرسکتی تھیں۔میں ظاہرہ کے متعلق اور کچھ نہیں کہوں گا اس لیے کہ میرے دکھ میں اضافہ ہوگا۔
رفیق میں کھلنڈرہ پن اس عمر میں بھی موجود ہے۔ چھوٹی سی بات ہوگی اور وہ ہنس ہنس کر اپنا برا حال کرلے گا۔ بہت خوش ہوگا تو اچھلنا کودنا شروع کردے گا۔
ہم فلمستان میں’’چل چل رہے نوجوان‘‘ بنا رہے تھے۔ ہیرو اشوک اور ہیروئن نسیم بانو ( پری چہرہ) تھی۔ رفیق اس میں ایک رول ادا کررہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ نسیم کی ماں چھمیاں (شمشاد) کو جانتا ہے جو کسی زمانے میں دلی کی قیامت خیز طوائف تھی۔دلی میں ایک رات اسے چھمیاں کے بالا خانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ چمیاں گارہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بلوریں صراحی سے جام بھر بھر کر پی رہی تھی۔ مجرا سننے والے اور بھی تھے۔ شہر کے رئیس۔ چھمیاں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور اشارے سے اپنے پاس بلا کر ایک جام پیش کیا۔۔۔ رئیس پیتے گیے اور وہ پندرہ روز تک اس کے بالا خانے میں زیر حراست رہا۔
میں نے نسیم سے اس کا تعارف کرایا۔ رفیق نے اس کو جب دلی میں دیکھا تو وہ چھوٹی سی بچی تھی جو بقول رفیق ہر وقت چنریا اوڑھے ادھر ادھر پھدکتی رہتی تھی۔ نسیم، رفیق کو جانتی تھی۔ ان میں جو گفتگو ہوئی بہت پرتکلف تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسیم ادب آداب اور رکھ رکھاؤ ملحوظ رکھتی ہے۔ اس نے رفیق کو ایسا کوئی موقع نہ دیا کہ وہ ’’ڈھیلی‘‘ قسم کی بات کرسکتا لیکن وہ اسی میں خوش تھا۔ اتنا خوش کہ میرے کمرے میں پہنچتے ہی اس نے بے تحاشا ناچنا شروع کردیا۔ نسیم کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا وہ میز پر چڑھا۔ وہاں سے دھم کرکے فرش پر گرا اور لوٹنے لگا۔ لوٹتے لوٹتے میز کے نیچے چلا گیا۔ اٹھا تو اس کا سرتڑاق سے اس کے ساتھ ٹکرایا۔ اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کے نیچے سے نکلا اور گانے لگا۔
وہ چلے، جھٹک کے دامن میرے دست ناتواں سے
وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ چلے۔۔۔ وہ چلے۔۔۔ وہ چلے
میرا خیال ہے رفیق چاہتا تھا کہ نسیم بانو سے بھی سلسلہ ہو جائے مگر انگور کھٹے تھے۔ اس لیے اس نے کوشش فضول سمجھی اور اسے دیکھ دیکھ کرہی اپنا ’’جی پشوری‘‘ کرتا رہا۔
نور جہاں غالباً اس کے ہتھے چڑھ جاتی لیکن وہ بہت بری طرح ڈائریکٹر سید شوکت حسین رضوی کی محبت میں گرفتارتھی۔ میں اس کے متعلق کسی قدر تفصیل اپنے مضمون ’’نور جہاں سرور جاں‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ البتہ رقاصہ ستارہ بغیر رفیق کی خواہش کے اور بغیر ارادے کے سرفراز ہوگئی۔
اروڑہ اور اس کا جھگڑا تھا۔ بیچ میں نذیر(ایکٹر) بھی تھا۔ اس تگڈم کی گرہیں کھولتے کھولتے رفیق نے ستارہ کی گرہ بھی کھول دی۔ کچھ اس طرح کہ اس کا پتا رفیق کو چلا نہ ستارہ کو۔
سہراب مودی ’’سکندر‘‘ بنا رہا تھا۔ ظہور احمد پون پل (بمبئی میں) جسم فروشوں کی منڈی سے ایک نووارد اور نوجوان طوائف مینا کو لے اڑا تھا۔ اس نے اس نوخیز کو اپنی بیوی بنالیا تھا۔ وہ منروا مودی ٹون میں ملازم تھی۔ رفیق غزنوی نے’’سکندر‘‘ کے لیے ایک مارشل کورس مرتب کیا۔ اس کے بول شاید یہ تھے۔
زندگی ہے پیار سے، پیار سے بتائے جا
حسن کے حضور میں اپنا سر جھکائے جا
یہ کورس بہت مقبول ہوا۔ شاید اسی خوشی میں اس نے مینا کے حسن کے حضور میں اپنا سر جھکا دیا مگر زیادہ دیر تک جھکائے نہ رکھا، تین چار سجدے کیے اور مصلے اٹھا کر چل دیا۔
پون پل ہی میں حیدر آباد سے دو بہنیں غالباً شہزادہ معظم جاہ سے اپنی جان چھڑا کر آباد ہوئیں۔ بڑی کا نام اختر تھا چھوٹی کا انور۔ ان کا وطن دراصل آگرہ تھا۔ انور بالی عمر کی تھی۔ یہی کوئی چودہ پندرہ برس کی۔ دونوں مجرا کرتی تھیں۔ انور کی مسی کی رسم ابھی تک ادا نہیں ہوئی تھی۔ بڑی پر ہمارے دلی کے ایک دوست ہلدیہ صاحب سو جان سے فدا تھے۔
ایک رات مجھے ہلدیہ صاحب کے ساتھ ان دو بہنوں کے بالا خانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ مجرا سننے کے بعد باتیں شروع ہوئیں تو رفیق غزنوی کا ذکر آیا۔ میں نے کہا، ’’بڑا حرام زادہ ہے۔‘‘ چھوٹی(انور) نے ایک تیکھی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا، ’’آپ کی شکل اس سے ملتی جلتی ہے۔‘‘ مجھ سے کوئی جواب بن نہ آیا اور پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔
اس واقعے کا ذکر میں نے رفیق سے کیا۔ وہ ان کو نہیں جانتا تھا۔ مجھ سے پتہ پوچھ کر اس نے ان کے یہاں آنا جانا شروع کردیا۔ میرا خیال ہے یہ سلسل کم از کم ایک برس تک جاری رہا۔ رفیق نے پیش گوئی کی کہ انور ایک بہت بڑی مغنیہ بنے گی اور ٹھمری گانے میں اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ یہ صحیح ثابت ہوئی۔ جن لوگوں نے اسے سنا ہے اس کی تصدیق کریں گے۔
بمبئے کے بعد میں نے انور بائی آگرے والی کو دلی ریڈیو اسٹیشن میں دیکھا۔ جہاں میں ان دنوں ملازم تھا۔۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔ اللہ اللہ کیا انقلاب تھا۔ چند برسوں ہی میں یہ کایا پلٹ۔۔۔ پون پل کا وہ چلبلا پن،وہ شریف اور تیکھا غمزہ معلوم نہیں کون ظالم اس کے وجود سے نوچ کر لے گیا تھا۔ اب وہ ایک لمبی آہ تھی۔ بڑی نازک ہوا کے ہلکے سے ہلکورے سے بھی جس کے ہزار ٹکڑے ہو سکتے تھے۔
مائیکرو فون کے سامنے گاؤ تکیے کا سہارا لے کربیٹھی اور تانبورے کے ساتھ اپنی سر لگا دیتی کہ اس کی نحیف گردن کو سر کا سارا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔۔۔ پر وہ گاتی اور اس کی آواز سننے والوں کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔
رفیق گویا کم ہے مداری زیادہ ہے۔ وہ آپ کو اپنا گانا سنانے سے پہلے ہی وجد میں لے آئے گا۔ باجے کے کسی سر پر انگلی رکھے گا اور خود پر سرتاپا رقت طاری کرکے کہے گا ’’ہائے‘‘ یہ ہائے بہت لمبی ہوگی۔ پھر وہ دوسرے سر کو دبائے گا اور اس سے لمبی ’’ہائے‘‘ اس کے حلق سے نکلے گی جو سامعین کے رونگٹے کھڑے کردے گی۔ اس کے بعد وہ باجے میں مزید ہوا بھرے گا۔ اس کی آنکھوں کی تلیاں اوپر چڑھ جائیں گی۔ ایک جگر دوز آہ اس کے سینے کی گہرائیوں سے نکلے گی اور جب وہ کسی اور سر پر انگلی رکھے گا تو اس پر حال کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ قریب ہوگا کہ سننے والے اپنے کپڑے پھاڑنے اور سر کے بال نوچنے لگیں تو ایک دم بے وہ تحاشا ہنسنا شروع کردے گا اور باقاعدہ گانے لگے گا۔ آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ پیاسی زمین پر ساون کی جھڑی کھل کر برس جانے کے بعد کوئی ماشکی اپنے مشک سے چھڑکاؤ کررہا ہے۔
گاتے وقت بہت برے برے منہ بناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے قبض ہے۔ اس کے پیٹ میں شدت کا درد ہے جس کے باعث وہ پیچ و تاب کھا اور کراہ رہا ہے۔ اس کو گاتے دیکھ کر (خاص طور پر جب وہ کوئی پکا گانا گارہا ہو) یا تو خود آپ کو تکلیف ہوگی یا اس کی حالت پر ترس آئے گا اور آپ خلوص دل سے دعا کریں گے کہ خدا اسے اس کرب سے نجات دلائے۔
عذرا میر نے بمبئے کے بہت دولت مند یہودیوں کے ساتھ مل کر لاکھوں کے سرمائے سے ایک فلم کمپنی قائم کی تو اپنے پہلے فلم ’’ستارہ‘‘ کے میوزک کے لیے رفیق غزنوی کو منتخب کیا۔ عذرا میر خوبصورت ہے۔ اس کے ساتھ یہودی سرمایہ داربھی خوش شکل اور رعب داب والے تھے۔رفیق جب ان کے ساتھ کھڑا ہوتا تو بالکل الگ نظر آتا تھا۔ اس کی شان ہی دوسری تھی۔
رفیق جب کام شروع کرتا ہے تو بڑے ٹھاٹ سے۔ ایک سو سا زندے ہوں گے جن کے جھرمٹ میں کھڑا وہ سب کو ہدایات دے رہا ہوگا۔ پنجابی میراثیوں کے ساتھ میراثی پن چلے گا۔ بات بات پر پھبتی اور جگت۔ جو کرسچین ہیں، ان سے انگریزی میں مذاق ہوتے رہے گے، جو یو پی کے ہوں گے ان سے اردو میں شستہ کلامی ہوگی۔
ایک دن رفیق دفتر میں عذرا میر کے ساتھ بیٹھا فلم کے کسی گانے کے متعلق تبادلہ خیالات کررہا تھا۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا۔ کوئی بات کرتے کرتے وہ رک گیا۔ دفتر سے دور میوزک روم تھا۔ وہاں سازندے اس کی ایک کمپوزیشن کی ریہرسل کررہے تھے۔ رفیق نے اپنے کان کا رخ اس طرف کیا جہاں سے آواز آرہی تھی اور ناک بھوں چڑھا کر بڑے اذیت بھرے لہجے میں کہا، ’’ڈیش اِٹ۔۔۔ ایک وائلن آؤٹ اَوف ٹیون ہے۔‘‘ اور اٹھ کر میوزک روم کی طرف چلا گیا۔
مجھے موسیقی سے کوئی شغف نہیں مگر میں نے اپنے وقت کے تمام بڑے بڑے گانے والوں اور گانے والیوں کو سنا ہے لیکن راگ و دیا نہیں سیکھ سکا۔ لیکن میں رفیق کے متعلق اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ سریلا نہیں،موسیقی کا علم وہ کہاں تک جانتا ہے اس کے بارے میں رائے دینا میری طرف سے بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ البتہ وہ لوگ جو خود موسیقار ہیں اور جن کا موسیقی کے میدان میں کافی نام ہے، ان میں سے اکثر کا یہ کہنا ہے کہ رفیق بے سرا ہے۔،سر سے ایک ایک دو دو’’سوتر‘‘ ہٹ کر گاتا ہے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے نور جہاں سے باتیں ہورہی تھیں کہ رفیق کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے اس سے رفیق کے بارے میں دوسروں کی مندرجہ بالا تنقیص کا ذکر کیا تو اس نے جیب دانتوں تلے دبا کر اور دونوں کانوں کو اپنی انگلیوں سے چھوتے ہوئے کہا، ’’توبہ، توبہ۔۔۔ یہ محض افترا ہے۔۔۔ وہ استاد ہے، اپنی طرز کا واحد مالک۔‘‘لیکن اس نے یہ تسلیم کیا کہ اب رفیق کی آواز میں وہ پہلی سی چمک دمک نہیں رہی اور یہ محض عمر کا تقاضا ہے، جہاں تک علم کا تعلق ہے،نور جہاں اسے گنی کہتی ہے۔
اس کے ایک گن کا میں بھی متعرف ہوں۔ وہ بے شرم ہے، بے حیا ہے، بے غیرت ہے لیکن اوباش نہیں۔ اس کی افتاد عام آدمی کی نہیں ایک آرٹسٹ کی افتاد ہے۔ وہ اگر شریعت کا پابند نہیں تو مروجہ قوانین کا پابند ضرور ہے۔ وہ اگر کسی کا دوست نہیں تو کسی کا دشمن بھی نہیں۔ وہ اگر صحیح معنوں میں کسی عورت کا شوہر نہیں تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں آج تک اس نے کسی عورت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ صحیح معنوں میں اس کی بیوی بنے۔
شریف عورتیں چونکہ اس کے مطلب کی نہیں اس لیے وہ ان کا احترام کرتا ہے۔ غیر شریف عورتیں چونکہ اس کو اچھی لگتی ہیں اس لیے وہ ان کی بے حرمتی کرتا ہے۔ بینک میں روپیہ ہوتو اچھے اور شاندار کپڑے پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ بینک بیلنس خالی ہو تو اچھے اور شاندار کپڑے پہننا ضروری سمجھتا ہے۔
دلی کے ایک معزز ہندو خاندان کی ایک تعلیم یافتہ نوجوان دوشیزہ کو اس سے محبت ہوگئی۔ دیر تک وہ رفیق کو عشقیہ خطوط لکھتی رہی۔ رفیق بمبئے میں تھا کہ اس کا ایسا خط آیا کہ رفیق پریشان ہوگیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ رفیق اور پریشانی۔ دو متضاد چیزیں؟رفیق نے ساری رام کہانی سنائی اور کہا، ’’منٹو، یہ لڑکی پاگل ہوگئی ہے۔ میں ایک ہرجائی مرد ہوں۔ مجھے اس افلاطونی محبت سے کیا واسطہ۔ کہتی ہے گھر سے بھاگ کر میرے پاس آجائے گی۔۔۔ آجائے ٹھیک ہے لیکن میں کب تک اس کی شریف اور پاکیزہ محبت سے چپکارہوں گا۔۔۔ خدا کے لیے تمام شریف عورتیں اپنے گھر میں رہیں۔ شادی کریں، بچے جنیں اور جائیں جہنم میں، مجھے ان کا عشق درکار نہیں۔ میری ساری عمر گزر گئی، کھوٹے سکے چلاتے۔ کھرے مجھ سے نہیں چلیں گے۔‘‘
چنانچہ رفیق نے اس ہندو دوشیزہ کو ایسا دل شکن خط لکھا کہ وہ اپنے ارادے سے باز آگئی۔
رفیق پر یہ مضمون تشنہ ہے،مجھے اس کا شدید احساس ہے۔ اس پرکسی اخبار، رسالے یا کتاب کے لیے جب بھی کوئی مضمون لکھے گا، تشنہ ہی رہے گا ،اس لیے کہ اس کی ہزار پہلو شخصیت کا احاطہ چند صفحات نہیں کرسکتے۔ زندگی رہی تو میں اپنے تاثرات قلم بند کرکے ایک مکمل کتاب کی صورت میں پیش کروں گا۔
آخر میں ایک لطیفہ سن لیجئے۔
فلم ’’چل چل رے نوجوان‘‘ کے زمانے میں رفیق نے پروڈیوسر ایس مکر جی، ڈائریکٹر گیان مکر جی، اشوک کمار، سنتوشی، شاہد لطیف اور میری دعوت کی۔ ہم سب رفیق کے مکان واقع شواجی پارک پہنچے۔ رفیق ہلکے ہلکے سرور میں ہارمونیم سامنے رکھ کر فرش پر بیٹھا تھا۔ پاس ہی شیداں تھی اور اس کا بھائی۔ ہم پہنچے تو اس نے ہمارا استقبال کیا۔ میرا گالیوں سے اور باقیوں کا سلاموں سے۔
شراب کے دوتین دور چلے۔ دوسروں کو اس نے اسکاچ دی اور مجھے’’سولن‘‘ کی یعنی دیسی۔ میں خاموش رہا۔ وہ حسبِ عادت بات بات پر مجھے گالیاں دیتا رہا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ کھانا لگایا گیا۔ حسب معمول اس نے مرغے کے گوشت کے اچھے اچھے ٹکڑے نکال کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیے۔
کھانا کھانے کے بعد ایک ایک کرکے سب چلے گیے۔ میں بیٹھا رہا۔ شیداں اندر جاکے سو گئی۔ رفیق زیادہ پینے کا عادی نہیں۔ وہ پہلے ہی سے بمبئی کی زبان میں’’چکار‘‘ تھا۔ مرغن کھانوں سے اس کی آنکھیں مندنے لگیں۔ میں چپکے سے اٹھا، دوسرے کمرے میں جا کر بڑے اطمینان سے الماری کھولی اور اسکاچ کی بوتل اٹھالیا۔ آدھی سے کچھ زیادہ تھی۔ میں آرام سے پیتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے سالے کو بھی دیتا رہا۔ کبھی کبھی رفیق کو اکسا دیتا اور وہ غنودگی کے عالم یں چند لکنت بھری گالیاں منہ سے اگل دیتا۔
اب میں نے جو مغلظات بکنا شروع کیں تو رفیق بلبلا اٹھا۔ میری گالیوں کی فہرست کوئی اتنی لمبی چوڑی نہیں۔ دو تین مرتبہ منہ بھرا تو ختم ہوگئیں۔ میں نے یہ استادی کی کہ گالی آدھی کرتا اور دوسری آدھی گالی کے ساتھ جوڑ کر لڑھکا دیتا۔ اس ترکیب سے بھی زیادہ دیر تک کام نہ چلا لیکن میں نے سوچا کم بخت کو ہوش کہاں ہے جو الم غلم منہ میں آئے، نکال باہر پھینکو۔ چنانچہ میں نے یہی کیا۔ رفیق نشے سے چور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ آخر اس نے مردہ آواز میں کہا، ’’جانے دو منٹو میری جان۔۔۔ میں تھک گیا ہوں۔ مجھ میں اب گالیاں دینے کی سکت نہیں ہے۔‘‘ میں یہی تو چاہتا تھا کہ اس میں سکت نہ ہو ورنہ میں اور اس کے مقابلے کی جرأت کرتا؟
میں نے اس پر یہ مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر وہ یقیناً اپنے مخصوص انداز میں مجھے بڑی نستعلیق گالیاں دے گا۔۔۔ لیکن میں لاہور میں ہوں، وہ کراچی میں۔ فی الحال تو محفوظ ہو۔ لاہور آئے گا تو میں اس کی مغلظات سن لوں گا۔ پھر اس کی دعوت کروں گا اور جم خانہ وسکی میں اسپرٹ گھول کر۔۔۔ خود پی لوں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.