Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے

میر مظفر حسین ضمیر

کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے

میر مظفر حسین ضمیر

MORE BYمیر مظفر حسین ضمیر

    1

    کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے

    جس نور سے پر نور یہ نور نظری ہے

    آمد ہی میں حیران قیاس بشری ہے

    یہ کون سی تصویر تجلی سے بھری ہے

    گو حسن کا رتبہ نہیں مذکور ہوا ہے

    منبر مرا ہم مرتبۂ طور ہوا ہے

    2

    صد شکر کہ مجلس مری مشتاق سخن ہے

    یہ فیض عنایات حسین اور حسن ہے

    پھر جوش جوانی پہ مری طبع کہن ہے

    یہ قوت امداد شہ تشنہ دہن ہے

    نقاش میں یہ صنعت تحریر نہیں ہے

    تصویر دکھاتا ہوں یہ تقریر نہیں ہے

    3

    نقاش تو کرتا ہے قلم لے کے یہ تدبیر

    اک شکل نئی صفحۂ قرطاس پہ تحریر

    انصاف کرو کلک زباں سے دم تحریر

    میں صفحۂ باطن میں رقم کرتا ہوں تصویر

    سو رنگ سے تصویر مصور نے بھری ہے

    رنیگنئ مضموں کی کہاں جلوہ گری ہے

    4

    تصویر میں اس شخص کی ہوں تم کو دکھاتا

    جو ثانی محبوب الٰہی ہے کہاتا

    اک نور جو جاتا ہے تو اک نور ہے آتا

    وجہ عدم سایۂ احمد ہوں سناتا

    تھا بعد محمد کے جو آیا علی اکبر

    تھا احمد مختار کا سایہ علی اکبر

    5

    یاں تک سخن تازہ کیا طبع نے پیدا

    وہ نور نبی اور نبی نورخدا کا

    یہ سلسلۂ نور کہاں جا کے ہے پہنچا

    اکبر کو جو دیکھا تو بتاؤ کسے دیکھا

    واللہ زیارت کا سزا وار ہے اکبر

    نعم البدل احمد مختار ہے اکبر

    6

    لیکن تمہیں تصویر یہ کرتی ہے اشارت

    ہاں مجلسیاں روضۂ جنت کی بشارت

    ہو محو طہارت ہے اگر قصد زیارت

    ہے لازم و ملزوم زیارت کو طہارت

    اس قصد پہ بیٹھے ہو جو صاحب نظرو تم

    تجدید وضو اشک کے پانی سے کرو تم

    7

    لکھا ہے کہ تھی حضرت شبیر کو عادت

    ہوتی تھی نماز سحری سے جو فراغت

    پہلے علی اکبر ہی کو بلواتے تھے حضرت

    فرماتے تھے کرتا ہوں عبادت میں عبادت

    روشن ہو نہ کیوں چشم حسین ابن علی کی

    کرتا ہوں زیارت میں جمال نبوی کی

    8

    کرتے علی اکبر تو جھکا فرق کو مجرا

    ہر مرتبہ مل جاتا تھا پاؤں سے سر ان کا

    تعظیم کو ہوتے تھے کھڑے سید والا

    کہتے علی اکبر کہ یہ کیا کرتے ہو بابا

    شہ کہتے تھے عادت تھی یہ محبوب خدا کی

    تعظیم وہ کرتے تھے بتول عذرا کی

    9

    اے جان پدر ہے مجھے واجب تری توقیر

    تو سر سے قدم تک ہے مرے نانا کی تصویر

    تب جوڑ کے ہاتھوں کو وہ نو بادہ ٔ شبیر

    گردن کو جھکا شرم سے کرتا تھا یہ تقریر

    بس ختم شرافت ہوئی فرزندہ علی پر

    رکھا ہے قدم آپ نے دوش نبوی پر

    10

    تب لیتے تھے پیشانی کا بوسہ شہ ذی شان

    کہتے تھے کہ شیریں سختی پر تری قربان

    زینب نے سنے راز و نیاز ان کے یہ جس آن

    چلائی کہ دونوں پہ تصدق ہو مری جان

    دیکھا نہ کوئی باپ اگر ابن علی سا

    بیٹا بھی سنا ہے کوئی ہم شکل نبی سا

    11

    سن لو علی اکبر کی زیارت کا قرینہ

    پہلے تو کدورت سے کرو صاف یہ سینہ

    پھر دیدۂ باطن کو کرو دیدۂ بینا

    تا جلوہ نما ہو رخ سلطان مدینہ

    معلوم ہوا صفحۂ قرآں علی اکبر

    تحقیق ہوا کعبۂ ایماں علی اکبر

    12

    قرآن کی تشبیہ یہ اس دل نے بتائی

    پیشانیٔ انور ہے کہ ہے لوح طلائی

    ابرو سے ہے بسم اللہ قرآں نظر آئی

    جدول کشش زلف کی قاروں نے دکھائی

    وہ زلف وہ بینی الف و لام رقم ہے

    پر میم دہن مل کے یہ اک شکل الم ہے

    13

    اور کعبۂ دلہا کی یہ تمثیل ہے اظہر

    یہ خال سیہ ہے حجر الاسود زیور

    محراب حرم پیش نظر ابروے اکبر

    یہ چاہ ذقن ہے چہ زمزم کے برابر

    اس بینئ اقدس کا مجھے دھیان گر آیا

    کعبہ میں دھرا نور کا منبر نظر آیا

    14

    دیکھو کہ صفا ہے رخ اکبر سے نمایاں

    یاں سعی میں ہردم ہے دل زینب نالاں

    کعبہ جو سیہ پوش ہے اے صاحب عرفاں

    یاں بھی رخ انور پہ ہیں گیسوے ٔ پریشاں

    اس زلف میں پابند دل شاہ امم ہے

    زنجیر میں کعبے کی یہ قندیل حرم ہے

    15

    کیا قدر کوئی پائے مبارک کی سنادے

    یہ رکن ہیں کعبہ کے اگر فہم خدادے

    انصاف کرو تم کو خدا اس کی جزا دے

    اس رکن کو یوں امت بے دین گرادے

    حج تم نے کیا کعبے کا جب چشم ادھر ہے

    معنی حج اکبر کے یہی ہیں جو نظر ہے

    16

    سب آتے ہیں کعبے نے یہ ہے مرتبہ پایا

    یہ قبلۂ ایمان ہدایت کا جو آیا

    آہوے حرم جان کے مجروح بنایا

    اور خون کا دریا تھا ہر اک سمت بہایا

    قربانی ہو کعبے میں یہ فرمان خدا ہے

    یہ کعبہ تو امت ہی یہ قربان ہوا ہے

    17

    حسن علی اکبر تو سنایا نہیں جاتا

    کچھ دل ہی مزا چشم تصور میں ہےپاتا

    اس قد کا اگر باغ میں مذکور ہے آتا

    تب سرو انگشت شہادت کو اٹھاتا

    پیشانی تو آئینہ لب ریز صفا ہے

    ابرو ہے کہ خود قبلہ ہے اور قبلہ نما ہے

    18

    مانند دعاے سحری قد رسا ہے

    ماتھا ہے کہ دیباچہ انوار خدا ہے

    دو زلف نے اک چاند سا منہ گھیر لیا ہے

    وصل شب قدر و شب معراج ہوا ہے

    دو زلفیں ہیں رخسار دل افروز بھی دو ہیں

    ہاں شام بھی دو ہیں بہ خدا روز بھی دو ہیں

    19

    ہے چشم سیہ بس کہ تہہ ابروے خم دار

    سو پنچۂ مژگاں کو اٹھائے تن بیمار

    محراب کے نیچے یہ دعا کرتے ہیں ہربار

    اس چشم جہاں بیں کو نہ پہنچے کوئی آزار

    گیسو نہیں یہ سنبل فردوس نشاں ہیں

    یہ چشم نہیں نرگس شہلائے جہاں ہیں

    20

    ہونٹوں سے کبو دی جو عطش کی ہے نمودار

    ہوتا ہے دھواں آتش یاقوت سے اظہار

    غصے سے جو ابرو میں شکن پڑتی ہے ہربار

    ہالہ اسے سمجھے ہیں سرو ہی کا وہ کفار

    ابرو جو ہر اک موے مبارک سے بھرا ہے

    اعجاز سے شمشیر میں نیزوں کو دھرا ہے

    21

    اس ابروو بینی میں یہ پائی گئی صورت

    جس طرح مہ عید پہ انگشت شہادت

    شمع حرم حق نے کیا سایۂ وحدت

    گوہر یہ نیا لایا ہے غواص طبیعت

    مطبوع ہر اک شکل سے پایا جو رقم کو

    یاں رکھ دیا نقاش دو عالم نے قلم کو

    22

    خط جلوہ نما عارض گلگوں پہ ہوا ہے

    مصحف کو کسی نے ورق گل پہ لکھا ہے

    یہ چشم یہ قد حسن میں اعجاز نما ہے

    ہاں اہل نظر سرو میں بادام لگا ہے

    تیروں سے سوا ترکش مژگاں کا اثر ہے

    دشمن کے لیے ریزۂ الماس جگر ہے

    23

    کانوں کا تہ زلف مسلسل ہے اشارہ

    دو پھول ہیں سنبل میں نہاں وقت نظارا

    کس کو صفت حسن بنا گوش کا یارا

    خورشید سے دیکھو تو ٹپکتا ہے ستارا

    چہرہ غرق آلودہ دم صف شکنی ہے

    خورشید پہ ہر قطرۂ سنبل یمنی ہے

    23

    برگشتہ مژہ اس کی یہ کرتی ہے اشارے

    برگشتگیٔ عمر کے سامان ہیں سارے

    مژگاں کے یہ نیزے جو خمیدہ ہوئے بارے

    دھڑکا ہے کہ نیزہ کوئی اکبر کو نہ مارے

    یک چشم زدن میں جو فلک اس سے پھرے گا

    اس چشم کے مانند یہ نیزوں سے گھرے گا

    24

    لب ہیں کہ ہے دریائے لطافت بہ سراوج

    اس اوج میں پیدا یم قدرت کی ہوئی موج

    ہیں فرد نزاکت میں مگر دیکھنے میں زوج

    دو ہونٹ ہیں اور پیاس کی ہے چاروں طرف فوج

    بند آنکھیں ہیں لب خشک ہیں اور عالم غش ہے

    اور منہ میں زباں ماہی دریاے عطش ہے

    25

    کس منہ سے کرے اب کوئی مدح درد نداں

    کچھ قدر نہیں در عدن کی جہاں چنداں

    تارے سے چمکنے لگے جس دم ہوئے خنداں

    مضمون یہ ہے قابل دشوار پسنداں

    یہ قاعدہ کلی ہے نہ ہو مدح بشر سے

    کلی کوئی جب تک نہ کرے آب گہر سے

    26

    گردن ہے کہ فوارۂ نور ازلی ہے

    یہ دوش تو ہم دوش بدوش نبوی ہے

    سینہ ہے کہ آئینہ وضع احدی ہے

    دل صاف نظر آتا ہے آئینہ یہی ہے

    ان ساعدو ساقین کے رتبے کہو کیا ہیں

    یہ چار مگر ماہی دریاے صفا ہیں

    27

    پشتینوں سے یہ پشت ہے ہم پشت پیمبر

    لیکن شہ مظلوم چڑھے پشت نبی پر

    یہ پشت پہ شبیر کی بیٹھا ہے مکرر

    لے فرق سے تانا خن پا نور سراسر

    کیا فرق ہے موسیٰ میں اور اس ماہ لقا میں

    واں ہاتھ میں اور یاں ید بیضا کف پا میں

    28

    اور تن پہ سلاح خربی خوبی سجا ہے

    یہ خود نہیں سایہ افضال خدا ہے

    نیزہ نہیں شبیر کا یہ دست دعا ہے

    یا بانوۓ مغموم کی فریاد رسا ہے

    چار آئینے میں چار طرف عکس پڑے ہیں

    یا بہر مد دپنچ تن پاک کھڑے ہیں

    29

    شبیر تو اس کے تن عارض پہ فدا ہے

    زینب کا تو پوچھو نہ جو کچھ حال ہوا ہے

    عابد کو قلق اس کی جدائی کا بڑا ہے

    بانو کا تو سر خاک یہ اس غم سے جھکا ہے

    یہ چار نہیں پھول جو تزئین سپر ہیں

    بالائے سپر چاروں کے یہ داغ جگر ہیں

    30

    یہ تیغ کلید در اقبال و ظفر ہے

    ہر سمت کو وا جس کے لیے زخم کا در ہے

    حلقہ یہ زرہ کا نہیں تن رشک قمر ہے

    سو تن سے ملا دیدۂ ارباب نظر ہے

    گھوڑا تو ہے خاکی پہ خمیر آب بقا ہے

    گرمی میں جو آتش ہے تو سرعت میں ہوا ہے

    31

    میں چشم تصور میں لگا کھینچنے تصویر

    بس ذہن میں سرعت سے نہ ٹھہرا کسی تدبیر

    جب بندش مضمون میں باندھا دم تحریر

    دی کلک نے آواز پری کو کیا تسخیر

    ڈھیلی جو ہوئی باگ تصور کی ادھر سے

    جوں عمر رواں ہوگیا معدوم نظر سے

    32

    اس گھوڑے کی سرعت کہو کیوں کر کروں مرقوم

    جوں حرف غلط حرف ہوئے جاتے ہیں معدوم

    کونین میں یہ تیز روی کے جو ہیں مفہوم

    یاں ہوتا ہے معلوم نہ واں ہوتا ہے معلوم

    مرقوم ثنا صفحۂ کاغذ پہ جہاں ہو

    ہر حرف وہیں مورچے کی طرح رواں ہو

    33

    کیوں مومنو تصویر پیمبر نظر آئی

    لیکن تمہیں کس وقت