اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزار
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزار
کہیو ہم صحرا نوردوں کا تمامی حال زار
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
منصب بلبل غزل خوانی تھا سو تو ہے اسیر
شاعری زاغ و زغن کا کیوں نہ ہووے اب شعار
طائر خوش زمزمہ کنج قفس میں ہے خموش
چہچہے چہیاں کریں ہیں صحن گلشن میں ہزار
برگ گل سے بھی کیا نہ ایک نے ٹک ہم کو یاد
نامہ و پیغام و پرسش بے مراتب درکنار
بے خلش کیونکر نہ ہو گرم سخن گلزار میں
میں قفس میں ہوں کہ میرا تھا دلوں میں خار خار
بلبل خوش لہجہ کے جائے پہ گو غوغائیاں
طرح غوغا کی چمن میں ڈالیں پر کیا اعتبار
طائران خوش لب و لہجہ نہیں رہتے چھپے
شور سے ان کے بھرے ہیں قریہ و شہر و دیار
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
شہروں شہروں ملکوں ملکوں ہے انھوں کا اشتہار
کیا کہوں سوئے چمن ہوتا جو میں سرگرم گشت
پھول گل جب کھلنے لگتے جوش زن ہوتی بہار
شور سن سن کر غزل خوانی کا میری ہم صفیر
غنچہ ہو آتے جو ہوتا آب و رنگ شاخسار
خوشنوائی کا جنہیں دعویٰ تھا رہ جاتے خموش
جن کو میں کرتا مخاطب ان کو ہوتا افتخار
بعضوں کو رشک قبول خاطر و لطف سخن
بعضوں کا سینہ فگار و بعضوں کا دل داغدار
ایکوں کے ہونٹوں کے اوپر آفریں استاد تھا
ایک کہتے تھے رسوخ دل ہے اپنا استوار
ربط کا دعویٰ تھا جن کو کہتے تھے مخلص ہیں ہم
جانتے ہیں ذات سامی ہی کو ہم سب خاکسار
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
بیٹھ کر کہتے تھے منہ پر میرے بعضے بعضے یار
بندگی ہے خدمت عالی میں ہم کو دیر سے
کر رکھی ہے جان اپنی ہم نے حضرت پر نثار
سو نہ خط ان کا نہ کوئی پرچہ پہنچا مجھ تلک
واہ وا ہے رابطہ رحمت ہے یہ اخلاص و پیار
رفتہ رفتہ ہو گئیں آنکھیں مری دونوں سفید
بسکہ نامے کا کیا یاروں کے میں نے انتظار
لکھتے گر دو حرف لطف آمیز بعد از چند روز
تو بھی ہوتا اس دل بیتاب و طاقت کو قرار
سو تو یک ننوشتہ کاغذ بھی نہ آیا میرے پاس
ان ہم آوازوں سے جن کا میں کیا ربط آشکار
خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس
آفریں صد آفریں اے مردمان روزگار
اب بیاباں در بیاباں ہے مرا شور و فغاں
گو چمن میں خوش کی تم نے میری جائے نالہ وار
ہے مثل مشہور یہ عمر سفر کوتاہ ہے
طالع برگشتہ بھی کرتے ہیں اب امداد کار
اک پر افشانی میں بھی ہے یہ وطن گلزار سا
سامعوں کی چھاتیاں نالوں سے ہوویں گی فگار
منہ پہ آویں گے سخن آلودۂ خون جگر
کیونکہ یاران زماں سے چاک ہے دل جوں انار
لب سے لے کر تا سخن ہیں خونچکاں شکوے بھرے
لیک ہے اظہار ہر ناکس سے اپنا ننگ و عار
چپ بھلی گو تلخ کامی کھینچنی اس میں پڑے
بیت بحثی طبع نازک پر ہے اپنی ناگوار
آج سے کچھ بے حسابی جور کن مردم نہیں
ان سے اہل دل سدا کھینچے ہیں رنج بے شمار
بس قلم رکھ ہاتھ سے جانے بھی دے یہ حرف میرؔ
کاہ کے چاہے نہیں کہسار ہوتے بے وقار
کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں
بے تہی کرتے رہیں گے حاسدان نابکار
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0804
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.