علاج ہجر ذرا اور کرکے دیکھتے ہیں
دلچسپ معلومات
خمسہ بر غزلِ احمد فراز
علاج ہجر ذرا اور کرکے دیکھتے ہیں
نظارے ہم کسی رشک قمر کے دیکھتے ہیں
خمار دید سے ہم بھی سنور کے دیکھتے ہیں
''سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں''
ہمیں کسک سی جو لاحق ہے چند سالوں سے
نجات پانے کو جاتے ہیں ان ملالوں سے
ہلاک ہوتے ہیں اس کی نگہ کے بھالوں سے
''سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں
سبو مزاج ہے صد چشم نغمہ ساز اس کی
وہ بے نیاز نگہ ہے سخن طراز اس کی
دل شقی سے تو اچھی ہے ساز باز اس کی
''سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں''
غزل سنانے کا اس کو ہمیں ملا ہے شرف
سخن میں ہم نے بنایا جو اس کو اپنا ہدف
تو اٹھ بھی سکتی ہے اس کی نظر ہماری طرف
''سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں''
وہ مسکرائے تو رخ پر گڑھے سے پڑتے ہیں
لبوں کو چھوتے ہیں الفاظ تو سنورتے ہیں
جو لمس پاتے ہیں ہونٹوں کا تو نکھرتے ہیں
''سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں''
وہی تو ہے جسے ہر ایک چاند کہتا ہے
وہ جس کے نور میں سورج کرن سا بہتا ہے
وہ جس کے ہجر کو سورج بھی چھپ کے سہتا ہے
''سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں''
کہ اس کی زلف پہ تو بدلیاں کھل آتی ہیں
اسی کی دید پہ یہ قمریاں بھی گاتی ہیں
اسی کے نور میں تو بجلیاں نہاتی ہیں
''سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں''
بہت حسین ہیں اس کی خیال سی آنکھیں
وفور بادہ سے رنگیں گلال سی آنکھیں
جو ان میں جھانک کے دیکھو تو ڈھال سی آنکھیں
''سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں''
کہ رسمسا کے ثناگر ہیں کونپلیں اس کی
سنا ہے کیف کا محور ہیں محفلیں اس کی
سنا ہے شوق سے برتر ہیں منزلیں اس کی
''سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں''
سنا ہے غنچہ دہن سر صد ملاحت ہے
سنا ہے جان غزل سربسر صباحت ہے
سنا ہے اس کی عجب رستخیز قامت ہے
''سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں''
جو مسکرائے تو یاقوت لب بہلتے ہیں
سنا ہے اس کے تبسم سے دل پگھلتے ہیں
عقیق ہونٹوں پہ جب قہقہے مچلتے ہیں
''سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں''
ہے بات اور ہی اور ہر ادا حسیں اس کی
صبا کے دوش پہ وہ زلف عنبریں اس کی
کہ دل پہ قہر ہیں باتیں وہ دل نشیں اس کی
''سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں''
کہ دیکھتے جو ہیں خود کو وہ اس کے درپن میں
ہوئے ہیں اتنے وہ مسحور اس کی بن ٹھن میں
وہ خود کو بھول کے کھوئے ہیں اک نئے پن میں
''سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں''
سنا ہے لمس کو پانے کے اس کے ارماں میں
وفور کیف کے افسوں میں شوق جاناں میں
اسی خیال میں کھو کر کبھی شبستاں میں
''سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں''
غرور حسن کے پھولوں کی ایسی تیسی ہے
گو خوشبو ان کی بھی بالکل اسی کے جیسی ہے
پر ان کی آن یہاں پاش پاش کیسی ہے
''سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں''
نظیر کوئی بھی اس کا سر بلاد نہیں
کوئی بھی حسن میں اس حسن سے زیاد نہیں
نہیں جو دیکھ کے اس کو کوئی جو شاد نہیں
''وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں''
عجیب چیز ہے جلوہ جمال کامل کا
ہٹے کبھی کہ جو پردہ ہے اس کے محمل کا
خیال پھر نہیں رہتا ہے کوئی منزل کا
''بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں''
سنا ہے اس کے شبستاں سے منفعل ہے بہشت
سنا ہے اس کے شبستاں سے مضمحل ہے بہشت
سنا ہے اس کے شبستاں سے مندمل ہے بہشت
''سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں''
چلے تو گردشیں سب اعتراف کرتی ہیں
چلے تو راستہ اس کا وہ صاف کرتی ہیں
چلے تو اس کے سلیقے کا لاف کرتی ہیں
''رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں''
خیال و خواب کی اک انجمن اسے دیکھے
اور اس طرح کہ بہ دیوانہ پن اسے دیکھے
کبھی دریچہ سے گزری پون اسے دیکھے
''کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں''
عجب جنوں کے یہ اپنے معالجے ہی سہی
دل غریب کے اپنے مغالطے ہی سہی
یہ بالک ہٹ کے سبب کے مطالبے ہی سہی
''کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں''
اسی کے کوچہ میں رہ لیں کہ در بدر جائیں
اسی کے در پہ ہی بیٹھیں یا اپنے گھر جائیں
اب اس کے شہر کو چھوڑیں یا اس میں مر جائیں
''اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں''
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.