آگہی کا قطرہ قطرہ زہر
دلچسپ معلومات
(سیپ، کراچی ۔ شمارہ 26 ، مئی جون1973 ء)
مجھے بتاؤ کہ میں کہاں ہوں
مجھے سمجھاؤ میں کون ہوں کیا ہوں اور کیوں ہوں
میں بے بصر بے خبر
سفر کی بے رحم ساعتوں کا اسیر
ان راستوں کا راہی
کہ جن کا ہر سنگ میل بے چہرہ بے نشاں ہے
خزاں زدہ برگ خشک
اندھی ہوا کے پر شور بے سماعت بپھرتے ریلے
کی رہ گزر پر
میں ان گنت بے شمار سالوں سے
نارسائی کے کرب سے دل شکستہ اور پا فگار راہی
کہ جس کی ہر سعی بے ثمر نے
کہ جس کی ہر کاوش سفر نے
کچھ اور منزل کے فاصلوں کو بڑھا دیا ہے
مثال میرے سفر کی تمثیل آل موسیٰ
کہ اپنے دشت عمل میں اپنی سیاہ بختی کا ہاتھ پکڑے
رواں دواں ہوں کئی زمانوں سے
اور جب بھی ٹھہر کے کچھ دیکھتا ہوں اپنے سفر کا حاصل
تو کوئی منزل نہ راہ منزل
چلا تھا میں جس جگہ سے اب بھی وہاں کھڑا ہوں
مجھے بتاؤ کہ میں کہاں ہوں
مجھے سجھاؤ میں کون ہوں کیا ہوں اور کیوں ہوں
مرے بدن پر نہ میرا چہرہ
نہ میرے منہ میں زبان میری
نہ میری آنکھیں نہ کان میرے
میں اجنبی جسم کے حوالے سے اپنی پہچان کا ہوں عادی
نہ سوچ میری نہ ذہن میرا
نہ فکر میری نہ مجھ کو اپنا شعور ذاتی
مرے تشخص کے واسطے میرے محسن و چارہ ساز لاتے
رہے ہیں برسوں
حسیں حسیں خوش لباس سرخ و سفید چہرے
کوئی مصر ہے سفید چہرہ مرے بدن پر بہار دے گا
کسی کو اصرار سرخ چہرہ بہت سجے گا
حسیں حسیں خوش لباس چہروں کی یورش بے پنہہ کے ہاتھوں
میں اپنا چہرہ بھلا چکا ہوں
میں اپنی پہچان کھو چکا ہوں
مجھے دکھاؤ تو میرا چہرہ
کہ میں بھی جانوں
کہ میں بھی سمجھوں
میں کیسا لگتا ہوں آئنے میں
کہ میری پہچان مستقل ہو
میں اپنے ہی جسم کے حوالے سے اپنی پہچان تو کراؤں
میں کون ہوں کیا ہوں اور کیوں ہوں
سوال اول سوال آخر
مری ہر اک سمت آج لکھا ہوا ہے حرف سوال دیکھو
سوال جو سوچ کی کرن ہے
سوال جو آگہی کا زینہ ہے خود شناسی کا اک چلن ہے
مجھے بتاؤ
جواب کتنا ہی تلخ ہو اس کو میں سنوں گا
مجھے پلاؤ
میں قطرہ قطرہ یہ زہر خود آگہی پیوں گا
کہ اس طرح وہ جو میں نہیں ہوں
یہ زہر پی کر مٹے تو شاید میں دیکھ پاؤں
اسے جو میں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.