میں ہوں جس کا شاعر
وہ انسان کہاں ہے
ساری دنیا جسے مانتی رہی ہے
وہ بھگوان کہاں ہے
حسین چہرے
پھول اور کلیاں
جھومتی شاخیں
درخت آشیاں
ہریالی
نہریں دریا ساگر
اونچے اونچے کہساروں کی بلندیاں
ناچنے والے
ہزار ہا رنگین پرندے
شام و سحر کو پھولنے والی شفق
برکھا رت کی ست رنگی دھنک
سورج چاند ستارے
راتوں کو جھلملاتی کہکشاں
جن کے دیکھے سے
بہل جائیں دل
سکھ پائیں پران
اب وہ دل وہ سکھ ان پرانوں کا
نام و نشاں کہاں ہے
میں ہوں جس کا شاعر
وہ انسان کہاں ہے
ساری دنیا جسے مانتی رہی ہے
وہ بھگوان کہاں ہے
بے حساب صدیوں کی آنکھیں
ایک پل میں
ان گنت بار جھپکتی پلکیں
نظر نہ آنے والی نظریں
چھاتی سے بچوں کو لپٹائے ہوئے ماتائیں
کھنک دار چوڑیوں بھری کلائیاں
جن پر دودھ پلاتی ماتاؤں کی
جھکی ہوئی شرمیلی آنکھیں
آنچلوں میں چھپے ہوئے ننھے ننھے بالک
چوری چوری ماتاؤں کا چہرہ تاکیں
جوانیوں کے نینوں سے پریت کے چلتے بان
آج اس پیار بھرے
جوان جیوں کا ارمان کہاں ہے
میں ہوں جس کا شاعر
وہ انسان کہاں ہے
وہ انسان کہاں ہے
آج وہ اپنی دھرتی اپنے جیون کی بربادی کی
تیاری میں
ویست ہے مصروف ہے گم ہے
بچوں کے کومل بدن کے ٹکڑے
ہتھیاروں کے ودھان کی جھاڑیوں جنگلوں میں
لا وارث لاشیں
جن کو
مردار خور پیٹ بھرے جانور
کھائے بنا ہی گزر جائیں
پھر کھائیں کیونکر
کوئی بتائے
کتنی عبادت گاہیں
مندر
مسجد
گرجا گھر اور گردوارے
کتنی جلدی ڈھائے جا سکتے ہیں
یا ان سب کو ہلاکتوں کے ساز اور اسلحوں کا
گودام بنا دینا بہتر ہے
بے گناہوں کا لہو زمین میں جذب نہیں ہو سکتا
شاید کبھی نہیں
کوئی بتائے
کب یہ زمیں دوبارہ شعلہ زار بنے گی
کیا کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں؟
جو اپنی زمین کو زندگی کی جنت بنا سکے
اک انسانی طاقت
ہمت اک عزم کے ساتھ
دیس دیس ملکوں ملکوں
میں انسان کو للکاروں گا
لیکن میں ہوں جس کا شاعر
وہ انسان کہاں ہے
ساری دنیا جسے مانتی رہی ہے وہ بھگوان کہاں ہے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.