Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عہد نامۂ امروز

عزیز قیسی

عہد نامۂ امروز

عزیز قیسی

MORE BYعزیز قیسی

    اور پھر یوں ہوا

    دن کا اگلا پہر سبز زیتون کی چھاؤں میں کاٹ کر

    ابن آدم اٹھا

    اپنے اک ہاتھ میں سانپ اور دوسرے ہاتھ میں

    اک ممولا لیے

    عرش کی سمت جاتے ہوئے

    مڑ کے وادی کے لوگوں سے اس نے کہا

    ''مجھ پہ ایمان لاؤ خدا مر چکا ہے

    یہ افلاک و آفاق کا بار اب میرے شانوں پہ ہے

    مہر و ماہ و کواکب سبھی میرے آیات ہیں''

    اور وادی کے لوگوں میں کچھ لوگ دانا تھے ایمان لے آئے

    کچھ کشمکش میں رہے

    اور کتنے ہی ایسے بھی تھے جو خود اپنی صداؤں میں گم

    ابن آدم کی آواز سے دور تھے

    اور پھر یوں ہوا

    چار آفاق سے اک گھنا ابر اٹھا

    اور وادی پہ اک سائباں کی طرح تن گیا

    اور زمیں جیسے تپنے لگی

    اور وادی کے سب لوگ گھبرا گئے

    ایسی آواز میں جیسے سکرات میں سانس کی فصل کو

    کاٹتا ہو کوئی

    ابن آدم کو سب نے پکارا کہ

    یہ موت کے کالے ڈھکنے کی مانند آنکھوں پہ رکھا ہوا

    ابر کیسا ہے؟

    تنور پر ایک تانبے کی تھالی کی مانند تپتی زمیں کس لیے!

    دیکھ ہم لوگ ایسے لرزتے ہیں سینوں میں ایمان

    جیسے لرزتے ہوں

    یہ کیسا آسیب ہے!!

    ان کی آواز لوٹ آئی

    پھر کانپتے تلملاتے دھڑکتے دلوں سے یہ سب نے سنا

    ''ابر سے زہر برسے گا

    تپتی زمیں اور دہکے گی

    وادی کا ہر غنچہ مر جائے گا

    خاک کے رحم میں سانس لیتا ہوا آفرینش کا ہر بیج

    مر جائے گا''

    یہ صدائیں افق تا افق گونج اٹھیں

    اور سب نے سنیں

    ان میں دانا بھی تھے

    جن کی دانائیاں تن برہنہ کنواری کنیزوں کی مانند

    لب بستہ تھیں

    اور وہ لوگ بھی ان میں موجود تھے

    کشمکش جن کے دل کی گنہ گار جسموں کے

    معصوم بچوں کی مانند حیران تھی

    اور کتنے ہی وہ بھی تھے

    معصومیت جن کی فولاد پیکر غلاموں کی مانند

    مقتول تھی

    اور پھر یوں ہوا

    سب کی نظریں اٹھیں جس طرف

    اپنے اک ہاتھ میں ارض محکوم اور دوسرے ہاتھ میں

    جوہری بم لیے

    ابن آدم کھڑا تھا کسی آتشیں پیڑ کی چھاؤں میں

    نیچے وادی میں اک شور تھا

    ''وہ ہمارا خدا ہم کو لوٹاؤ

    تسکین کی کوئی صورت تو ہو

    کوئی چھت کوئی سایہ کوئی سائباں

    کچھ تو ہو جس کے ظلمات میں چھپ کے ہم

    زندگی کاٹ لیں

    اور یہ ابر آنکھوں سے اوجھل رہے''

    وہ ہمارا خدا ہم کو لوٹاؤ

    وادی کا یہ شور بڑھتا رہا

    شور کرتی ہوئی بھیڑ میں وہ بھی تھے

    جن کے ایمان مضبوط تھے

    اور پھر یوں ہوا

    ابن آدم نے دیکھا کہ

    وادی میں صدیوں کا بوڑھا خدا پھر سے موجود تھا

    مأخذ :
    • کتاب : aaina dar aaina (Pg. 80)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے