اے غم دل کیا کروں
(یہ نظم ماہ جولائی 1973 کی کسی تاریخ میں قیام فتح پور کے دوران کہی تھی)
جس پہ بھی ڈالوں نظر وہ شخص گھبرایا لگے
جس کو دیکھوں زندگی سے جیسے تنگ آیا لگے
غم کا مارا ہر کوئی خوشیوں کا ٹھکرایا لگے
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
فاقہ مستی تنگ دستی کا ہے چرچا چار سو
مر گئی ہے اب دلوں سے زندگی کی آرزو
ہو گیا ہے خشک انسانوں کے جسموں کا لہو
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
بچے گلیوں میں پھریں آوارہ کتوں کی طرح
اور سڑکوں پر بکیں کچھ جسم پھولوں کی طرح
کوئی تڑپے بھوک سے زخمی پرندوں کی طرح
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
ظلم کرتے ہیں سبھی اب مہربانی کی جگہ
ذلتیں ملتی ہیں اکثر قدردانی کی جگہ
آسماں بھی آگ برساتا ہے پانی کی جگہ
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
رشوتوں کی ٹھوکروں میں ہیں اصولوں کے مزار
اب نہیں قانون میں تلوار کی سی تیز دھار
کھو دیا ہے آج کے انسان نے اپنا وقار
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
اس نئی تہذیب نے پیدا کیے اجلے سماج
کس انوکھے ڈھنگ سے بدلا ہے دنیا کا رواج
حسن بے پردہ ہوا ہے عشق آوارہ مزاج
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
آدمی خود ہی پرستار جہالت بن گیا
مندر و مسجد کا جھگڑا ایک عادت بن گیا
دھرم تو اک پیار تھا جو آج نفرت بن گیا
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
ہند ہو یا پاک ہو یا روس ہو یا بحر روم
جس طرف اٹھتی ہیں نظریں ہیں وہاں فتنوں کی دھوم
آدمی کے فعل سے سہمے ہیں اب ماہ و نجوم
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
زندگی کیا ہے تڑپتی دوپہر کا روپ ہے
ہر طرف پھیلی ہوئی بے مائیگی کی دھوپ ہے
آدمی کے روپ پر چھایا ہوا بہروپ ہے
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.