اندیشے
جس دل میں خدا کا خوف رہے باطل سے ہراساں کیا ہوگا
جو موت کو خود لبیک کہے وہ حق سے گریزاں کیا ہوگا
آئین چمن بندی بھی نہیں دستور نوا سنجی بھی نہیں
اب اس سے زیادہ گلشن کا شیرازہ پریشاں کیا ہوگا
ارباب محبت سے یہ کہو شکوے نہ کریں کچھ کام کریں
جو ظلم و ستم پر اترائے شکوؤں سے پشیماں کیا ہوگا
جو لوگ ہوا کے ساتھی ہیں وہ اپنے خدا کے باغی ہیں
اس جرم بغاوت سے بڑھ کر ایمان کا نقصاں کیا ہوگا
مدت سے کشاکش جاری ہے صیاد میں اور گل چینوں میں
تنظیم گلستاں ہونے تک انجام گلستاں کیا ہوگا
جس کشتی کی پتواروں کو خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے ہمدردوں کو پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا
جس چوٹ سے دل میں ہلچل ہے آہوں میں وہ ظاہر کیا ہوگی
سینے میں جو محشر برپا ہے اشکوں سے نمایاں کیا ہوگا
اس شام خزاں نے اب تک تو ہر طرح سے پردہ داری کی
جب صبح بہار آ جائے گی اے تنگئ داماں کیا ہوگا
جلوت کہ خلوت ہو ماہرؔ دل کھویا کھویا رہتا ہے
اس غم کی تلافی کب ہوگی اس درد کا درماں کیا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.