چٹان
بچپن سے ماں کی دی ہوئی
سیکھ پر چلی ہوں میں
آج بھی چل رہی ہوں
اور آگے بھی چلنا چاہتی ہوں
پر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے
تھکن کا ایک بوجھ اپنے دل اور دماغ پر
اکثر ذہن میں اٹھتے ہیں کئی سوال
کیا حاصل ہونا ہے مجھے اس راہ پر
کب تک یوں ہی چلتی رہوں گی
اپنے چاروں جانب جب دیکھتی ہوں
جھوٹ کی اونچی عمارتیں
تو خیال آتا ہے
میرا سچ تو صحرا میں اڑتی
خاک سا ہے
میرا وجود یک بہ یک عناصر کا ڈھیر لگتا ہے
اور میں خود سے ہی گھبرا جاتی ہوں سہم جاتی ہوں
پھر یاد آتی ہے
ماں کی بچپن میں دی ہوئی سیکھ
سپھل وہی ہوتے ہیں جو سچے ہوتے ہے
یہ خیال آتے ہی نئے جوش میں
اپنے تھکے بکھرے ٹوٹے بدن کو سمیٹ کر
خاک سے چٹان کی شکل اختیار کرتی ہوں
اور تیار کرتی ہوں خود کو ایک بار پھر
جھوٹ کی عمارتوں سے جنگ کرنے کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.