درد عروج پر آ جائے تو
آ ری میل کچیلی
بھوکی ننگی دنیا
میں نے اک دن تیری قیمت
اک کم بیش روپے رکھی تھی
اپنے کہے پر آج بہت شرمندہ ہوں
آ میں تیرے سنگ
اک آخری رقص کروں
آگ اور دھوئیں کی آمیزش سے
سدرہ بوس درخت بنائیں
اور پھر اس کے سائے تلے
ہم گرجیلے گیتوں کی لے پر
چھاتی سے چھاتی ٹکرائیں
قدم سے قدم ملائیں
کیا اتراتا منظر ہے
چرچر کرتے ماس کی باس میں
آوازوں کا کیا نایاب خزانہ ہے
یہ اک ایسی سمفنی ہے
جس میں خوف نہیں ہے
درد عروج پر آ جائے تو
خوف کہاں رہتا ہے
آہ کراہ کا ایسا سنگم
لفظوں میں کس نے باندھا ہے
جسم و صدا کے ایسے ایسے دائرے
بن جاتے ہیں جن میں
ازلی نر تک ابد مغنی خود بھی کھو جاتے ہیں
آ ہم چاروں سمت میں
آگ لگا دیں
دریا اور سمندر بھک سے اڑا دیں
خود کو بھسم کریں
اے ری دنیا
تیری کراہت سے مجھ کو
کچھ عشق ہی ایسا ہے
میں مرتا ہوں
تو بھی مر جا
- کتاب : Quarterly TASTEER Lahore (Pg. 90)
- Author : Naseer Ahmed Nasir
- مطبع : H.No.-21, Street No. 2, Phase II, Bahriya Town, Rawalpindi (Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011)
- اشاعت : Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.