Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک خواب

وزیر آغا

ایک خواب

وزیر آغا

MORE BYوزیر آغا

    دھندلکوں کے باریک دھاگوں میں لپٹی ہوئی

    مطمئن بے خبر

    میں نے دیکھا وہ مجھ پر جھکی تھی

    وہ چشم حسیں جس کے ہر انگ میں مامتا تھی

    مجھے یوں لگا تھا وہ چشم حسیں تو مجھے

    بس مجھے گھورتی ہے

    کسی اور کو دیکھنے کی اسے نہ تو فرصت

    نہ ہمت نہ خواہش

    فقط مرکز ہست کو دیکھتی ہے

    مجھے دیکھتی ہے

    میں اس آنکھ کی جھیل میں تیرتے سبز بجرے

    کی درزوں سے رستے ہوئے گرم سیال سونے کی بوندوں

    کے پیچھے لپکتا رہا جگنوؤں سے مجھے ان دنوں کیسی رغبت تھی

    میں جلتے بجھتے ہوئے پیکروں کو پکڑ کر

    انہیں اپنے تن پر سجانے کی خواہش میں

    کس درجہ بے بس ہوا تھا

    کہ میں خود بھی شاید

    چمکتے ہوئے جگنوؤں کے سمندر میں

    اک جلتا بجھتا سا جگنو تھا

    اپنے ہی ہم زاد کو ڈھونڈھتا تھا

    زمانہ وہ مکتب سے بھاگا ہوا وحشی لڑکا

    جو میرے تعاقب میں گر گر کے پاگل ہوا تھا

    اسے دھن اگر تھی تو بس اس قدر تھی

    کہ وہ اپنی مٹھی میں مجھ کو گرفتار کر کے دکھائے

    زمان و مکاں کی حدوں میں

    کسی صاف تختی کے چہرے پہ لکھے

    سیاہی کے بے نام نقطے پہ رکنے کا خوگر بنائے

    مگر میں تو اس آنکھ کے آب غم کا شناور

    زمانے کی مٹھی میں آنے سے بیزار تھا

    جانتا تھا کہ ظالم زمانہ تو وحشی پرندے کی صورت

    گرسنہ نگاہوں کے غرفوں سے مجھ کو ہمیشہ تکے گا

    میں اس بات سے آشنا تھا

    کہ میں گر رکا

    تو مجھے آنکھ سے گرم آنسو کی صورت ٹپکنا پڑے گا

    کسی سبز موتی کی ٹھنڈی لحد میں اترنا پڑے گا

    پھر ایک روز

    وحشی پرندے کی پہلی جھپٹ مجھ پہ نازل ہوئی

    آنکھ رونے لگی

    اور میں زخم کو چاٹتا

    جھیل کے پانیوں میں سسکتا پھرا

    آنکھ روتی رہی

    ہر جھپٹ پر وہ آنسو کے قطروں میں ڈھل کر

    کناروں سے باہر نکل کر بکھرتی ہوئی

    اور پھر ایک دن

    جھیل پانی کے امرت سے خالی ہوئی

    جلنے بجھنے کے عالم سے آزاد ہو کر

    زمان و مکان کی حدوں میں

    کسی صاف تختی کے چہرے پہ دھبہ بنی

    اور میں

    نیلے آکاش پر چیختے اور ہنستے ہوئے اس پرندے

    کی آنکھوں میں اپنی ہی تصویر کو دیکھ کر مسکرایا

    سیاہی کے جادو سے باہر نکل کر میں اپنے ہی عرفان سے جگمگایا

    زمانہ مجھے دیکھ کر مجھ پہ جھپٹا

    مگر میں تو اک جھیل تھا میرے اندر زمانوں کے بجرے تھے

    بجروں سے سیال سونے کی کرنیں نکلنے لگی تھیں

    زمانہ مجھے اپنے پنجے میں لینے کو جھپٹا مگر ایک پل میں

    وہ خود میری مٹھی میں محبوس تھا

    ایک جگنو جسے میں نے ماتھے پہ قشقہ بنا کر لگایا

    جسے میں نے موتی کی ٹھنڈی لحد میں اتارا

    جسے میں نے ٹھنڈی لحد کے کنارے کا کتبہ بنایا

    مأخذ :
    • کتاب : Nirdbaan (Pg. 35)
    • Author : Wazir Agha
    • مطبع : Nusrat Anwar (1979)
    • اشاعت : 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے