علم
دلچسپ معلومات
1958میں انجمن ترقی پسند مصنفین (بمبئی) نے ایک ادبی مقابلے میں داؤد غازی کو اس نظم پر پہلا انعام دیا تھا۔
کون جانے کہ یہ خورشید ہے نا خوب کہ خوب
چاند اچھا کہ برا کون بتا سکتا ہے
خوش کہ نا خوش ہیں یہ شمعیں یہ ستارے یہ شفق
کون یہ پردۂ اسرار اٹھا سکتا ہے
ہاں یہ ممکن ہے شعاعیں ہوں ضرر کا باعث
کون کہتا ہے اجالوں سے کرو کسب زیاں
روشنی آگ سے نکلی ہے جلا سکتی ہے
بات اتنی بھی سمجھ سکتے نہیں ہم انساں
علم مزدور کو فن کار بنا دیتا ہے
علم منصور کو ہشیار بنا دیتا ہے
علم الفاظ کو تلوار بنا دیتا ہے
علم تنکے کو بھی پتوار بنا دیتا ہے
پاؤں کے چھالے کو رہوار بنا دیتا ہے
اک تہی دست کو سالار بنا دیتا ہے
روشنی گل نہ کرو رات ابھی باقی ہے
زیست سمجھی نہیں جو بات ابھی باقی ہے
خواہش چشمۂ ظلمات ابھی باقی ہے
پئے نیساں ہو جو برسات ابھی باقی ہے
علم ایک نور ہے یہ نور بکھر جانے دو
صبح عرفاں کو ذرا اور نکھر جانے دو
راہ ہستی کے خم و پیچ سنور جانے دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.