Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انکار کی سرحد پر

تبسم کاشمیری

انکار کی سرحد پر

تبسم کاشمیری

MORE BYتبسم کاشمیری

    اگر مجھ سے ملنا ہے آؤ ملو تم

    مگر یاد رکھنا

    میں اقرار کی منزلیں راستے ہی میں چھوڑ آیا ہوں

    اب مجھ سے ملنا ہے تم کو تو انکار کی سرحدوں پہ ملو

    جھینگروں مکڑیوں کے جنازے

    میں رستے پہ چھوڑ آیا ہوں

    پرانی کتھائیں مجھے کھینچتی ہیں

    زمیں کا زوال آج زنجیر پا بن رہا ہے

    خس و خاک کے سارے رشتے

    میں نے ہر شے کو اب تج دیا ہے

    کوئی معذرت بھی نہیں ہے

    کہ میں معذرت کے سبھی جھوٹے لفظوں کو

    اپنی لغت سے نکال آیا ہوں

    میں انکار کے آسمانوں پہ پھرتا ہوا

    میں انکار کا ورد کرتا ہوا

    میں زمینوں پہ اور آسمانوں کی ہر شے پہ

    انکار کی سرخ مہریں لگاتا ہوا

    اور دما دم کی اک تھاپ پہ

    میں نے ساتوں زمینوں کے ساتوں طبق آج روشن کیے ہیں

    دیکھنا آسماں رقص کرنے لگا ہے

    زمینوں کے سارے خزانے ابلنے لگے ہیں

    سارے دفینے جڑوں سے اکھڑ کر

    مرے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں

    میری آواز پر مچھلیاں پانیوں سے نکل آئی ہیں

    آج ارض و سماوات کی ساری پوشیدہ خبریں میں سننے لگا ہوں

    میں خوش ہوں مجھے آگہی مل گئی ہے

    بدن کے مساموں سے اب آگہی شعلہ بن کر چمکنے لگی ہے

    عجب کشف کی روشنی ہے

    زمیں اپنی سطح سے پاتال تک روشنی میں نہا کر

    شب اولیں کی دلہن کی طرح آج شرما رہی ہے

    تازہ ہواؤں کی دوشیزگی سات رنگوں میں برہنہ ہوئی ہے

    حیاؤں کی سرخی سے چہرہ کنول ہے

    کہ میری دلہن کا بدن پھول ہے

    وہ ہواؤں کے رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہے

    ہواؤں کی دوشیزگی سات رنگوں میں برہنہ ہوئی ہے

    ہر اک شے نقاب اپنا الٹے ہوئے ہے

    سبھی بھید اپنی زبانیں نکالے مرے سامنے آ گئے ہیں

    کتابوں کے اوراق خود بولتے ہیں

    زمیں آسماں کی ہر اک شے

    سمندر ہوائیں زمینوں کی سطحیں

    سطحوں کے نیچے صدیوں کے چہرے

    پہاڑوں کی برفیں برفوں کے شوریدہ پانی

    صدیوں کے پیاسے سمندر کے ساحل درختوں کے پتے

    پھولوں کے چہرے اور روز و شب کے سفید و سیاہ سلسلے

    ہر اک شے مجھے اپنے بھیدوں سے اسرار سے

    آشنا کر رہی ہے

    عجب آشنائی کی لذت ملی ہے

    میں اس آشنائی کی لذت سے سرشار ہو کر

    مقدس زمیں کے پرانے دکھوں کو گلے سے لگا کر

    میں اقرار کی منزلیں راستے ہی میں چھوڑ آیا ہوں

    میں ساری پرانی کتھائیں جلا کر

    فقط اک دما دم کی آواز پر رقص کرتا ہوا

    میں اقرار کی سرحدوں سے پرے آ گیا ہوں

    اب مجھ سے ملنا ہے تم کو

    تو آؤ ملو

    مگر یاد رکھنا

    میں اقرار کی دشمنی پر اتر آیا ہوں

    اب میں انکار کی سرحدوں پہ ملوں گا

    مأخذ :
    • کتاب : Prindey,phool taalab (Pg. 68)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے