Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسم آب

سلیم کوثر

اسم آب

سلیم کوثر

MORE BYسلیم کوثر

    دلچسپ معلومات

    (جنوری؍ 1990)

    جو تو تصویر کرتا ہے

    جو میں تحریر کرتا ہوں

    نہ تیرا ہے نہ میرا ہے

    مگر اپنا ہے یہ جب تک

    اسے پڑھنے میں کتنی دیر لگتی ہے

    ابھی ماحول کو چاروں طرف سے

    حبس کے صحرا نے گھیرا ہے

    مگر کب تک

    ہوا چلنے میں کتنی دیر لگتی ہے

    کوئی زنجیر ہے شاید ہمارے پاؤں میں

    اور راہ میں کافی اندھیرا ہے

    مگر کب تک

    دیا جلنے میں کتنی دیر لگتی ہے

    ہوائیں بادبانوں سے الجھتی اور کہیں ناقہ سواروں کو

    کوئی پیغام دیتی شام کے آنچل کو تھامے

    ساحلوں کی سمت آتی ہیں

    پرندے دائروں میں اڑتے پھرتے

    ابر کی چادر میں لپٹے

    رنگ برساتے

    فضاؤں میں سفر کی داستاں لکھتے

    ٹھکانوں کی طرف جاتے ہوئے

    منظر کو اپنے عکس میں تبدیل کرتے ہیں

    اچانک سر پھری موجیں

    مجھے چھو کر گزر جاتی ہیں

    اور میں اپنے تلووں سے نکلتی سنسناتی ریت کی سرگوشیاں

    محسوس کرتا ہوں

    وہی میں ہوں وہی اسباب وحشت ہیں وہی ساحل

    وہی تو ہے وہی ہنستی ہوئی آنکھیں

    تری آنکھوں میں رنگوں اور خوابوں کے جزیرے

    جگمگاتے ہیں

    سر مژگاں روپہلی ساعتوں کے استعارے مسکراتے ہیں

    ہنسی مہتاب بنتی ہے

    پھر اس مہتاب کے چاروں طرف آواز کا ہالہ ابھرتا ہے

    اور اس ہالے میں تیری انگلیاں

    نادیدہ منظر کو طلسم خواب سے آزاد کرتی ہیں

    ترے ہاتھوں کی جنبش

    دھوپ چھاؤں سے دھنک ترتیب دے کر

    خالی تصویروں میں خد و خال کو آباد کرتی ہے

    تری پلکیں جھپکتی ہیں

    ستارے سے ستارہ آن ملتا ہے

    کہ جیسے شام ہوتے ہی

    سبک آثار لہروں میں

    کنارے سے کنارہ آن ملتا ہے

    یہ جو کچھ ہے

    بہت ہی خوب صورت ہے

    مگر اس کے لئے ہے

    جو یہ سب محسوس کرتا ہے

    تجھے معلوم بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے

    ابھی دن کا تھکا ہارا مسافر دھوپ کے خیمے سمیٹے

    دور پانی میں اترنے کے لئے

    بے تاب ہے دیکھو

    یہ نیلا آسماں

    اپنی گراں خوابی میں خود غرقاب ہے دیکھو

    نہ جانے کیوں

    سمندر دیکھنے والوں کو

    سورج ڈوبنے کا خوف رہتا ہے

    کوئی ہے جس کو اسم آب آتا ہو

    کناروں کی طرح ہر لمحہ کٹ گرتا ہو

    زیر آب آتا ہو

    سمندر آسماں کی راہداری ہے

    مگر اس راہداری تک پہنچنے کا کوئی رستہ

    بڑی مشکل سے ملتا ہے

    یہ اسم آب

    ساحل پر کھڑے نظارہ بینوں کی سمجھ میں کس طرح آئے

    کہ یہ تو ڈوبنے والوں پہ بھی

    مشکل سے کھلتا ہے

    مگر کب تک

    اسے کھلنے میں کتنی دیر لگتی ہے

    مأخذ :
    • کتاب : جنہیں راستے میں خبر ہوئی (Pg. 441)
    • Author : سلیم کوثر
    • مطبع : فضلی بکس ٹیمپل روڈ،اردو بازار، کراچی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے