Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خاک اور دھند کا سفر

سرمد صہبائی

خاک اور دھند کا سفر

سرمد صہبائی

MORE BYسرمد صہبائی

    ہم ایک مدت سے دھند اور خاک میں معلق

    زمیں کی خوشبو سحر کی آہٹ کو ڈھونڈتے ہیں

    ہماری بے خواب سرد آنکھوں میں بجھتے موسم کی رنگتیں ٹمٹما رہی ہیں

    ہمارے پیروں کے نیچے مٹی پگھل کے دلدل بنی ہوئی ہے

    الجھتی سانسوں کی سخت گرہیں

    بدن کے اندر کھینچی ہوئی ہیں

    نڈھال صدیوں کے فاصلوں کا سفر کہ پاؤں میں پل رہا ہے

    دھڑوں کے نیچے ہمارا سایہ

    ہمارے جسموں کو ریزہ ریزہ نگل رہا ہے

    (۲)

    سمندروں سے ہوا لپٹ کر نئی رتوں کا وصال مانگے

    زمیں کی خوشبو سحر کی آہٹ کے دھندلے خوابوں کا عکس پھیلے

    ہمیں یقیں ہے ہوا کے گدلے سفر سے آگے

    چمکتے لمحوں کی رہ گزر ہے

    نئے گلابوں کی سرزمیں ہے

    ہمارے پاؤں میں آنے والے سفر کی خواہش تڑپ رہی ہے

    ہماری آنکھوں میں باؤلے خواب کا نشہ ہے

    ہم اپنے اپنے دھڑوں کے تابوت سے نکل کر

    بڑھے کہ سورج کا جسم چھینیں

    زمیں کی خوشبو کا کھوج پائیں

    ہم ایک مدت سے سوچتے ہیں

    کہ آسماں کے سیاہ پتھر میں اب کرن کا شگاف اترے

    زمیں کی پاتال سے کشش ہو

    نئے گلابوں کی مست خوشبو بدن میں پھیلے

    مگر وہی دھند کا سفر ہے

    کٹی پھٹی سرد انگلیوں پر لہو کے جگنو چمک چمک کر بکھر چکے ہیں

    رگوں کے ریشوں میں تازہ خواہش کی کشمکش سرد پڑ چکی ہے

    دھوئیں کے پھندے میں مرنے والوں کے نام ذہنوں کی تختیوں سے

    اتر رہے ہیں

    سروں پہ کرب و بلا کے موسم کا سخت خیمہ کھینچا ہوا ہے

    ہوا پہ لکھے ہوئے ہیں نوحے

    فضا میں لٹکے ہوئے ہیں چہرے

    افق پہ ٹوٹی ہوئی لکیریں

    زمیں پہ پھیلے ہوئے ہیں سائے

    سمندروں سے لپٹنے والی ہوا کی ان دیکھی ڈوریوں کا

    کوئی سرا ہاتھ میں نہیں ہے

    ہماری پلکیں ادھڑ چکی ہیں

    تمام خوابوں کی دھندلی روحیں مہیب جنگل کے راستوں پر

    بھٹک رہی ہیں

    الجھتی سانسوں کی سخت گرہیں

    ابھی تلک جسم پر کھینچی ہیں

    ہمارے نیچے کسی زمیں کی کشش ہو شاید

    یہیں کہیں دھند کے عقب میں ہو کوئی سورج نکلنے والا

    ہوا کے گدلے سفر سے آگے چمکتے لمحوں کی رہ گزر ہو

    نئے گلابوں کی سر زمیں ہو

    مگر پگھلتے بدن کو تحلیل کرنے والی عجیب ساعت سدا اٹل ہے

    ہماری خواہش یہ نیک ساعت ہماری آنکھوں میں گھل کے پھیلے

    ہمارے جسموں کا درد پگھلے

    ہماری خواہش یہ نیک ساعت سکوت بن کر تڑپتے جسموں میں آ کے ٹھہرے

    الجھتی سانسوں کی گرہیں کھولے

    ہم اس کی خوشبو کے پر سکوں ملگجے اندھیرے کی گہری لذت کے منتظر ہیں

    ہم اس کی خواہش میں اپنے اپنے دھڑوں کے تابوت میں بندھے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے