Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مضافات

عشرت آفریں

مضافات

عشرت آفریں

MORE BYعشرت آفریں

    چھوٹے چھوٹے قصبوں کے

    دکھ عجیب ہوتے ہیں

    سکھ عجیب ہوتے ہیں

    آنسوؤں کی بستی میں

    رسنے بسنے والوں کو

    کب کوئی غرض اس سے

    کاروبار ہستی میں

    نفع کیا خسارہ کیا

    عمر کے خزانے میں

    بیش و کم کا یارا کیا

    ان کا اپنا مسلک ہے

    ان کی اپنی دنیا ہے

    ان گھروں کی چوکھٹ پر

    وقت بانگ دیتا ہے

    منہ اندھیرے چکی میں

    خواب پیسے جاتے ہیں

    چاند سی رسوئی میں

    برتنوں کے آئینے

    دکھ کو منہ چڑھاتے ہیں

    ان گھروں کے آنگن میں

    دن طلوع ہوتا ہے

    خواب کاتے جانے سے

    زندگی کی ڈوری میں

    سکھ پروئے جانے سے

    آنکھ کے کٹوروں میں

    غم سموئے جانے سے

    مہرباں مشقت کے

    بوجھ ڈھوئے جانے سے

    دن طلوع ہوتا ہے

    کیاریوں کی مٹی میں

    گیت جب نہاتے ہیں

    رنگ چہچہاتے ہیں

    ساتھ کی منڈیروں پر

    خواب پر سکھاتے ہیں

    بچیاں خیالوں میں

    اپنے گھر بساتی ہیں

    موم کے گھروندوں میں

    زندگی کی ہنڈ کلھیا

    دھوپ سے پکاتی ہیں

    بے زبان گڑیوں سے

    جن کی آنکھ دھاگے کی

    جن کے ہونٹ ریشم کے

    اپنے دل کی سب باتیں

    بارہا بتاتی ہیں

    اور وقت سے پہلے

    سب رموز جینے کے

    آپ سیکھ جاتی ہیں

    ان گھروں کے آنگن میں

    دوپہر اترتی ہے

    ایک ننھی سوئی کی

    آنکھ کے جھروکے سے

    اک کرن کے موکھے سے

    دھوپ کے حنائی ہاتھ

    طشتری بڑھاتے ہیں

    چاہتوں کے میٹھے رنگ

    ذائقوں کے نادیدہ

    لمس چھوڑ جاتے ہیں

    چوڑیاں کھنکتی ہیں

    ہاتھ بات کرتے ہیں

    انگ انگ ہنستا ہے

    پور پور کے اندر

    دل دھڑکنے لگتا ہے

    پور پور روتی ہے

    اوڑھنی بھگوتی ہے

    خواب وہ پڑوسی ہے

    جس کے اجلے کرتے کا

    روز اک بٹن ٹوٹے

    دل کہ وہ محلہ ہے

    جس کے بسنے والوں سے

    روز اک خوشی روٹھے

    جانے کتنے جسموں کو

    بے ریا محبت کی

    آگ چاٹ جاتی ہے

    جانے کتنے نو مولود

    خواب دفن ہوتے ہیں

    دل کے سرد خانے میں

    جانے کتنے رشتوں کو

    دفن کرکے چپکے سے

    وقت کے گناہوں پر

    خاک ڈالی جاتی ہے

    ان اداس گلیوں میں

    سردیوں کی راتوں میں

    دور پار سے آتے

    دل نواز گیتوں کے

    سانولے سلونے بول

    چاند کو رلاتے ہیں

    چاند بھولا بھالا ہے

    چاند کو یہ کیا معلوم

    زندگی کی نوٹنکی

    یوں ہی چلتی رہتی ہے

    مفلسی کی رقاصہ

    تال پر زمانے کی

    جانے کتنی صدیوں سے

    ایک جیسے بولوں پر

    رقص کرتی رہتی ہے

    صبح سے ذرا پہلے

    بے بسی کے بستر پر

    وہ جو آ کے ڈھہتی ہے

    بستروں کے سب پیوند

    اس کو گدگداتے ہیں

    بے سبب ہنساتے ہیں

    بے سبب رلاتے ہیں

    ان گلی محلوں میں

    رات جب اترتی ہے

    مائیں اپنے بچوں کو

    لوریاں سناتی ہیں

    اپنی سرد بانہوں کا

    پالنا ہلاتی ہیں

    خواب وہ دکھاتی ہیں

    افسری کے شاہی کے

    خواب کج کلاہی کے

    چاند اور گلاب ان کے

    مدرسے جو جاتے ہیں

    قمچیوں سے ہوتا ہے

    بچپنے کا استقبال

    پھول جیسے جسموں پر

    بید جب برستی ہے

    دور تک چٹائی پر

    اک قطار میں بیٹھے

    لفظ تھرتھراتے ہیں

    سب ورق کتابوں کے

    ایسے پھڑپھڑاتے ہیں

    جیسے جان کھنچتی ہو

    ان کی درس گاہوں میں

    قمچیاں معلم ہیں

    قمچیاں مدرس ہیں

    قمچیاں رٹاتی ہیں

    صبر اچھی عادت ہے

    صبر اور قناعت سے

    زندگی سنورتی ہے

    ان گلی محلوں کا

    حسن کم سخن بھی ہے

    اور بھولا بھالا بھی

    ہاں یہ کم سخن لڑکا

    بھیگتی مسوں کے ساتھ

    گھر سے جب نکلتا ہے

    عمر کی حدیں ساری

    یوں پھلانگ جاتا ہے

    مفلسی ہوس پیشہ

    پھول جیسے گالوں کا

    رنگ چوس لیتی ہے

    بھولی بھالی باتوں سے

    رس نچوڑ لیتی ہے

    اور پھر زمانے کے

    بیچ چھوڑ دیتی ہے

    پیٹ بے حیا دلال

    در بدر پھراتا ہے

    سو جتن سکھاتا ہے

    چھوٹے چھوٹے قصبوں میں

    گھر کے سامنے بیٹھی

    سیدھی سادی امیدیں

    راہ تکتی رہتی ہیں

    عمر بیت جاتی ہے

    کچھ خبر نہیں ملتی

    ڈاکیہ جب آتا ہے

    چاہتوں کی پونجی میں

    اک رقم بڑھاتا ہے

    اور لوٹ جاتا ہے

    سیدھی سادی امیدیں

    گھر سے جانے والوں کو

    ایک جیسے لفظوں کی

    بھیجتی ہیں سوغاتیں

    وقت بوڑھا منشی ہے

    جس کو خط کا سب مضمون

    لفظ لفظ ازبر ہے

    پھر بھی پوچھ لیتا ہے

    اور کیا لکھوں بولو

    پھر سے اب کے ساون میں

    سائباں ٹپکتا ہے

    تن کی اور اک دیوار

    ڈھے گئی ہے اب کے بار

    سیدھی سادی امیدیں

    روز و شب کی چوکھٹ پر

    عمر کاٹ دیتی ہیں

    جسم خاک ہو جائے

    جان راکھ ہو جائے

    پیٹ تو جہنم ہے

    یہ جوان رہتا ہے

    ان کی آنکھ کا ساون

    چاہے کوئی موسم ہو

    مہربان رہتا ہے

    چھوٹے چھوٹے قصبوں کے

    دکھ عجیب ہوتے ہیں

    سکھ عجیب ہوتے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے