Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محرومی

میراجی

محرومی

میراجی

MORE BYمیراجی

    میں کہتا ہوں تم سے اگر شام کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ نہ دیکھا

    تو اس پر تعجب نہیں ہے نہ ہوگا

    ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی ظاہرا بے ضرر شوخ ناگن

    ابھرتے ہوئے اور لچکتے ہوئے اور مچلتے ہوئے کہتی جاتی ہے آؤ مجھے دیکھو میں نے

    تمہارے لیے ایک رنگین محفل جمائی ہوئی ہے

    انوکھا سا ایوان ہے ہر طرف جس میں پردے گرے ہیں وہاں جو بھی ہو اس کو

    کوئی نہیں دیکھ سکتا

    تہیں اس کے پردوں کی ایسے لچکتی چلی جاتی ہیں جیسے پھیلی ہوئی سطح دریا نے

    اٹھ کر دھندلکے کی مانند پنہاں کیا ہو فضا کو نظر سے

    ذرا دیکھو چھت پر لٹکتے ہیں فانوس اپنی ہر اک نیم روشن کرن سے سجھاتے

    ہیں اک بھید کی بات کا گیت جس میں مسہری کے آغوش کی لرزشیں ہوں

    ستونوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ رکتا ہوا اور جھجکتا ہوا چور سایہ یہی کہہ رہا

    ہے وہ آئے وہ آئے

    ابھی ایک پل میں اچانک یونہی جگمگانے لگے گا یہ ایوان یکسر

    ہر اک چیز کیسے قرینے سے رکھی ہوئی ہے

    میں کہتی ہوں مانو چلو آؤ محفل سجی ہے

    تم آؤ تو گونج اٹھے شہنائی دالان میں آنے جانے کی آہٹ سے ہنگامہ پیدا

    ہو لیکن مسہری کے آغوش کی لرزشوں میں تمہیں اس کا احساس

    بھی ہونے پائے تو ذمہ ہے میرا

    ازل سے اس ڈھب کی پابند ہے موج بیتاب اس کو خبر بھی نہ ہوگی کہ اک شاخ نازک

    نے بے باک جھونکے سے ٹکرا کے آہیں بھری تھیں

    مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے اگر شاد کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ

    نہ دیکھا تو اس پر تعجب نہیں ہے

    ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی شوخ ناگن

    یہ ڈستی ہے ڈستے ہوئے کہتی جاتی ہے

    جاؤ اگر تم جھجکتے رہوگے تو

    ہر لمحہ یکساں روش سے گزر جائے گا اور تم دیکھتے ہی رہوگے اکیلے اکیلے

    تمہیں دائیں بائیں تمہیں سامنے کچھ دکھائی نہ دے گا فقط سرد دیواریں ہنستی رہیں گی

    مگر ان کا ہنسنا بھی آہستہ آہستہ بیتے زمانے کی مانند اک دور کی بات معلوم ہونے لگے گا

    دھندلکے میں ڈوبی ہوئی آنکھ دیکھے گی روزن سے دور اک ستارہ نظر آ رہا ہے

    مگر چھت پہ فانوس کا کوئی جھولا نہ ہوگا

    شکستہ فتادہ ستونوں کی مانند فرش حزیں پر تمہارا وہ سایہ تڑپتا رہے گا جسے

    یہ تمنا تھی کہہ دوں تمنا کیا تھی

    بس اب اپنی غم ناک باتوں کو اپنے ابھرتے ہوئے اور بدلتے ہوئے رنگ میں تو چھپا لے

    میں اب مانتا ہوں کہ تو نے روانی میں اپنی بہت دور روزن سے دھندلے

    ستارے بھی دیکھے ہیں لاکھوں

    میں اب مانتا ہوں مری آنکھ میں ایک آنسو جھلکتا چلا جا رہا ہے ٹپکتا نہیں ہے

    میں اب مانتا ہوں مجھے دائیں بائیں مجھے سامنے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے فقط

    سرد دیواریں ہنستی چلی جا رہی ہیں

    میں اب مانتا ہوں کہ میں نے اس ایوان کو آج تک اپنے خوابوں میں دیکھا ہے لیکن

    وہاں کوئی بھی چیز ایسے قرینے سے رکھی نہیں ہے

    کہ جیسے بتایا ہے تو نے تری ایک رنگین محفل سجی ہے

    مسہری کے آغوش کی لرزشوں کا مجھے خواب بھی اب نہ آئے گا میں اپنے

    کانوں سے کیسے سنوں گا وہ شہنائی کی گونج سیندور

    کا سرخ نغمہ جسے سن کے دالان میں آنے جانے کی آہٹ

    سے ہنگامہ ہو جاتا ہے ایک پل کو

    مجھے تو فقط سرد دیواریں ہنستی سنائی دیے جا رہی ہیں

    مأخذ :
    • کتاب : Kulliyat Meeraji (Pg. 129)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے