سلسلۂ مکالمات خود کلامی
کب سے اس آتش نفس کا
یہ دبستان قدیم
چل رہا تھا ناگہاں
نکلا نتیجہ
امتحان علم اسما کا
تبھی سے
رہ گئی ہو کر مقفل یہ عمارت
اور چھٹی پر معلم
اپنے حجرے میں مقیم
آدم خاکی کی پیدائش سے پہلے
جن کا کہنا تھا زمیں پر
خون بہائے گا یہ ناحق
اور مچائے گا فساد
اب وہی پیشین گو امیدوار
اس کے گن گاتے ہوئے تھکتے نہیں
امتحان گاہ مقدر ہو تو ایسی
جس میں پر تاب و تواں ہم
کارپردازان فطرت لا جواب
اور آدم اس کی طینت میں تو گویا
حل شدہ پہلے سے تھے سارے سوال
جن مظاہر کی طرف دیکھا نظر بھر کر
معانی کے دمک اٹھے انہیں میں مضمرات
حکمت اشیا کے سانچے میں ڈھلی
بے ساختہ اسم آفرینی مرحبا
خاک بے مقدار کے ذرات میں
جوہر نطق و بیاں ایسا بھی مخفی ہے
کسے معلوم تھا
امتحاں ختم
اور مسجود ملائک بن گئی انساں کی ذات
میں نے لیکن شیوۂ انکار اپنایا
کہ میں آتش نہاد
مرتبے میں خاک افتادہ سے برتر
اصل میں والا گہر
چاہے افلاک و زمین پر
پھیل کر چھا جائے یہ مشت غبار
حربہ تسخیر لیکن کارگر مجھ پر بھی ہو اس کا
یہی اک مرحلہ ہے معرکے کا
امتحاں یہ سخت تر ہے
کامیابی اس میں بھی پائے یہی
امیدوار خوش گماں
آساں نہیں
میری اپنی اک لغت ہے
جس میں اسما کے معانی بار بار
اک نئی تعبیر کے آئینہ دار
منصب آزادگی آدم کا
اک پروانۂ غارت گری
اس میں لکھا ہے
اور آگاہی
تباہی کے وسائل تک رسائی کا جواز
اس میں چھپا ہے
الغرض اس کھیل کا مہرہ وہی
علم اسما ہے مگر
اک پر فسوں تقلیب کاری کا شکار
اک پر فسوں تقلیب کاری کا شکار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.