Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وبا کے دنوں کا سفر نامہ

احتشام علی

وبا کے دنوں کا سفر نامہ

احتشام علی

MORE BYاحتشام علی

    ۱

    شہر خالی کروا لیا جاتا ہے

    اور وبا کے دنوں میں محبت

    ممنوع قرار پاتی ہے

    کرایہ ناموں سے

    کئی شہروں کے نام غائب ہو

    جاتے ہیں

    اور

    ساحلی آنکھیں

    ڈاک کے انتظار میں

    بوڑھی ہونے لگتی ہیں

    مارچ کی سدا بہار سہ پہروں میں

    وقت

    کبھی کبھی

    جھرجھری لے کر اٹھتا ہے

    اور پھر اونگھنے لگ جاتا ہے

    ٹرین ایک سنسان اسٹیشن پر روک لی جاتی ہے

    ۲

    یہاں

    موت

    کڑوے باداموں کی

    مہک بن کر پھیل رہی ہے

    سرد آنکھیں بے رنگ چہرے

    اس کی دہشت سے

    پتھرانے لگے ہیں

    پرانے درختوں

    کی دراڑوں میں

    سانپ بسے ہیں

    سال خوردہ حویلی

    کسی قدیم پیشین گوئی کے

    خوف میں ڈوبی ہے

    اور

    چاندنی باغ کو

    جھڑتے پتوں کی

    چادر نے ڈھانپ لیا ہے

    ۳

    سنو

    اگر بوسوں پہ عائد پابندی

    ختم ہونے سے پہلے

    میں لوٹ کر نہ آ سکا تو

    تو یہ خط

    میری آخری نشانی سمجھ کر

    محفوظ کر لینا

    ۴

    رنج بھری دوپہر

    گلابی شاموں کی یاد میں

    طلوع ہوتی ہے

    اور سائے لمبے ہو کر

    آنکھوں تک آ جاتے ہیں

    قصبہ اداس ہے

    کہ اس بار

    نوروز کا تہوار

    منایا نہیں جا سکا

    گل دوپہری کے پھول

    گملوں میں مرجھا گئے ہیں

    گھروں کی کھڑکیوں پر

    جستی چادریں چڑھی ہیں

    کمرے میں نیم تاریک محبت کی

    یادگاریں دھندلا رہی ہیں

    اور فوٹو فریمز پہ جمی گرد

    سیاہ ہونے لگی ہے

    ۵

    سبز لہریں

    جزیرے کا کنارہ کاٹتی ہیں

    تو سرخ بارش

    کھپریل کی چھتوں پر ناچنے لگتی ہے

    میں یہ نظم

    پرانی رم کی بوتل میں ڈال کر

    سمندر کے حوالے کر رہا ہوں

    اگر آخری سورج

    غروب ہونے سے پہلے

    یہ تمہیں موصول ہو جائے

    تو میری تصویر کے ساتھ

    والے فریم میں لگا دینا

    ۶

    میری ساری زمین

    گروی رکھ لی گئی

    اور

    پورا آسمان

    سر سے چھین لیا گیا

    وہ وبا کے ابتدائی دن تھے

    جب تم

    میرے قریب آئیں

    اور وبا ختم ہونے سے پہلے

    رخصت ہو گئیں

    تمہارے جانے پر

    سارا قصبہ

    اداسی سے بھر گیا

    لیکن

    میں اپنی آنکھوں میں

    دو بوند آنسو بھی

    اکٹھے نہ کر سکا

    اک جھلستی شام میں

    مجھے کھرچے ہوئے

    سیاہ لفظوں کا وصیت نامہ

    انھوں نے تھمایا

    جنہوں نے

    کسی روشن تہوار پر

    مجھے یاد نہیں کیا تھا

    ۷

    میں یہاں

    اکھڑتی سانسوں میں پیوند

    لگاتے تھک چکا ہوں

    پشتینی سیاہ چادر

    میرے شانے ادھیڑ رہی ہے

    ایک دن میں

    اسی چادر میں لپٹا

    اس زمین میں سو جاؤں گا

    جہاں

    مجھے جاننے والا

    کوئی نہیں ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے