Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وینٹیلیٹر پر پڑی محبت

منظر لطیف

وینٹیلیٹر پر پڑی محبت

منظر لطیف

MORE BYمنظر لطیف

    تجھ کو بتایا بھی تھا کہ محبت

    ننھے بچوں کی ہنسی سے بہت مختلف ہے مگر

    تو نے ندی میں موجود مچھلیوں سے

    پانی کی عظمت کے قصے سنے اور

    محبت کرنے کی ٹھان لی

    کاش تب تمہیں علم ہوتا

    الو کو آبادیوں سے نفرت کیوں ہوئی

    خدا نے ہمیں محبت کی دیوی سے

    بچانے کے لئے پرندوں کو خط دے کر

    ہماری طرف بھیجا مگر

    انہیں ان تیر اندازوں نے مار ڈالا جو ابھی

    جنگ ہار کر اپنے گاؤں لوٹ رہے تھے

    ندی کنارے بیٹھے دو پریمی اک دوسرے کو

    چومتے تو رہے مگر اک دوسرے کو بتا نہ سکے

    کہ محبت کس پرندے کا نام ہے

    زمین پر خدا کے مقرر کردہ

    فرشتوں نے محبت کرنے کا سوچا تو انہیں

    سمندروں میں ضم کر دیا گیا

    محبت کہنے کو لفظ ہے مگر

    جسے تم نہ سمجھے وہ احساس تھا

    کئی صدیوں سے محبت کا سفر کرتا

    میں آج اسی جگہ ہوں جہاں سے چلا تھا

    کئی برس سے میرے گھر کے دروازے

    تیری دستک کے لیے ترس رہے ہیں

    اور ان کو بھی کسی کی یاد کی دیمک

    اندر سے کھائے جا رہی ہے

    میری جاں ہجر میں انتظار

    کوئی آساں بات تو نہیں

    تیرے جانے کو آج

    پانچ برس مکمل ہونے کو ہیں

    مگر تیری چوڑیوں کی کھنک آج تک

    میرے کانوں میں گونج رہی ہے

    تیری ہجرت کے بعد مجھے احساس ہوا

    کہ بارش کی آواز میں بھی اک موسیقی ہے

    جسے سن کر لوگوں نے محبت کرنا سیکھا

    میں نے چاہا تھا کہ ہمارے درمیاں اک آخری ملاقات ہوتی جہاں ہم

    لفظوں کی جگہ اک دوسرے کی خاموشی کو سمجھتے

    مگر اس ملاقات میں آٹھویں بر اعظم سے آئے

    کچھ انجان لوگ رکاوٹ بنے

    جو یونانی خداؤں کی ناجائز اولاد تھے

    تم نہیں جانتی تمہاری ہجرت کے بعد

    کتنے چراغوں نے زہر کے پیالے نوش کیے

    کتنے پرندوں نے گاؤں چھوڑ دیا

    کتنے پہاڑوں کو ندیوں نے اپنی آغوش میں لے لیا

    کتنی تتلیوں نے اپنے رنگ خدا کے کینوس کو تحفہ کر دئے

    تو کسی نے تیری آواز سننے کے لیے

    شہروں کے شور کو چھوڑ کر

    جنگلوں میں بسیرا کر لیا

    تیری ہجرت کے بعد میں نے خدا سے

    بغاوت کا سوچا تو خیال آیا

    کہ تو بھی اسی کی تخلیق ہے

    میں نے ویران شاہراہوں پہ رینگتی خاموشی میں

    تیری ہجرت کا دکھ دیکھا

    میں نے بیس ہزار سال پرانے کھنڈرات کی

    دیوار پر تیرا نام لکھا ہوا پڑھا تو محسوس ہوا

    تو تو گزشتہ صدیوں سے لوگوں کا ارماں رہا

    میں نے سو سالہ پرانے برگد کے پیڑ سے

    تیری محبت کے قصے سنے تو پتا چلا

    کہ خلا باز چاند پر زندگی کی

    تلاش میں کیوں ہیں

    میں نے پرانے شاعروں کی نظموں میں

    تیری ہجرت کا دکھ محسوس کیا

    میں نے درگاہوں کے باہر بیٹھے فقیروں کے چہروں پر

    تیری ہجرت کا غم دیکھا ہے

    کتنے درخت تیری طلب کی منت کے دھاگوں سے بھر گئے

    اور زمیں نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا

    زلزلوں سے بوسیدہ گھروں کے ملبوں سے

    ملنے والے خطوط میں

    میں نے تیرے لیے محبت بھرے جملے دیکھے

    میں نے یونانی خداؤں کی کتابوں میں تیرے قصے پڑھے

    تو محسوس ہوا تیری محبت کی داستاں میں

    میرا کردار ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہ تھا

    چنانچہ میں نے اپنی بینائی الو کو تحفہ کی

    اپنی لاچار محبت کو وینٹیلیٹر پر چھوڑا

    اور جنگل کا رخ کر لیا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے