جان صہباؔ سچ کہو پیہم سہارے یاد ہیں
وہ نگاہ اولیں کے کیا شرارے یاد ہیں
یاد ہیں وہ درد کی بڑھتی ہوئی بیتابیاں
سرد آہیں خشک لب آنسو کے دھارے یاد ہیں
وہ مئے الفت پلا دینا نگاہ مست سے
وعدۂ رنگیں کے وہ الفاظ پیارے یاد ہیں
نو بہ نو ساز محبت کی وہ نغمہ سنجیاں
وہ ترنم وہ تبسم وہ نظارے یاد ہیں
یاد ہیں وہ بزم عشرت کی سکوں سامانیاں
شب کی خاموشی وہ دریا کے کنارے یاد ہیں
وہ فضائے روح پرور وہ بہار جاں فزا
وصل کی شب کے تمہیں وہ چاند تارے یاد ہیں
میری جانب وہ بھری محفل میں خاموشی کے ساتھ
اپنی چشم مست کے رنگیں اشارے یاد ہیں
پھر ذرا دھیمے سروں میں گنگنانا شعر کا
پھول سے جھڑتے ہوئے گردوں کے تارے یاد ہیں
آدھی آدھی رات تک شام محبت کی بہار
صبح کی تنویر میں جلوے تمہارے یاد ہیں
یاد ہیں صہباؔ شباب و شعر کی رنگینیاں
ہاں حدیث عشق کے الفاظ سارے یاد ہیں
آج بھی میں سن رہا ہوں نغمہ ہائے جاں فزا
دوڑتی ہے ساز ہستی میں تری رنگیں نوا