یہ نفرتوں کی بنا جانے کس نے ڈالی ہے
محبتوں سے بھرا ہے وطن کا ہر ذرہ
ہوا چلے تو ہر اک گھر کو
زندگی دے دے
گھٹا جو برسے تو بنجر زمیں ہری کر دے
بہار آئے تو دیکھے نہ شاہ اور نہ فقیر
گلوں کے رنگ سے دھرتی کی
گودیاں بھر دے
یہ نفرتوں کا چلن پھر کہاں سے آیا ہے
کبھی گھٹاؤں نے یہ بھید بھاؤ رکھا ہے
ہواؤں نے کبھی دیر و حرم کو پرکھا ہے
سحر کی دھوپ نہ سوچے کہاں نکلنا ہے
نہ چھاؤں دیکھے کسی راہگیر کا منصب
تو پھر یہ زہر کی بوندیں کہاں سے آئی ہیں
کسی کے ساتھ ذرا دور چل کے دیکھو تو
کسی کے ہاتھ کو ہاتھوں میں لے کے دیکھو تو
کسی کے درد کو پلکوں سے چن کے دیکھو تو
ہٹا دو آنکھوں سے پردے یہ نفرتوں کے اگر
سب ایک سا لگے کعبہ ہو یا کلیسا ہو
نہ کوئی رام کا مندر نہ بابری مسجد
نہ گردوارے کے در پر کسی کا پہرہ ہو
دلوں کو جھکنے جھکانے کا فن اگر آ جائے
جہاں سے تفرقہ بازی کا ہر چلن مٹ جائے
اشوکؔ و اکبرؔ و گوتمؔ نے فرق کب رکھا
چلے تھے جوہرؔ و گاندھیؔ بھی ایک ساتھ سدا
لئے جواہرؔ و اقبالؔ پریم کی سوغات
یہ سچ ہے
نانک و چشتی کا خواب ایک ہی تھا
تو ان کے خوابوں کی تعبیر کیوں نہ سچ کر دیں
محبتوں سے زمانے میں روشنی بھر دیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.