آرسی کے دوہے
دھیان رکھے چنتا کرے یہ ہے اس کی ریت
ناری کے سنواد کو سمجھ نہ لینا پریت
یادیں تری نہ کٹ سکیں کاٹ دئے ناخون
بھینچ بھینچ کر مٹھیاں آنے لگا تھا خون
ننھے بالک جیسا من میں رہتا ہے سنتاپ
جاگے تو شیطان بہت ہے سوئے تو نشپاپ
کان اگر ہے تیری میری سماعتوں کا ساز
ویرانے میں پیڑ گرے تو ہوگی کیا آواز
سورج جب سر پر چڑھے دھوپ پسارے پاؤں
لوٹ آتی ہے جسم میں سہم کے میری چھاؤں