آرسی کے دوہے
آنکھیں چوندھیائی نہیں اور نہ جھلسے پاؤں
بانٹ گئی دیوار جو وہی دے گئی چھاؤں
ننھے بالک جیسا من میں رہتا ہے سنتاپ
جاگے تو شیطان بہت ہے سوئے تو نشپاپ
دھیان رکھے چنتا کرے یہ ہے اس کی ریت
ناری کے سنواد کو سمجھ نہ لینا پریت
کان اگر ہے تیری میری سماعتوں کا ساز
ویرانے میں پیڑ گرے تو ہوگی کیا آواز
سورج جب سر پر چڑھے دھوپ پسارے پاؤں
لوٹ آتی ہے جسم میں سہم کے میری چھاؤں