افضل علی افضل کے اشعار
راتوں کی نیند ایک پری زاد لے اڑی
دن کا سکون فکر معیشت میں کھو گیا
خاموش آنکھیں اداس چہرہ یہ بکھری زلفیں بجھا بجھا من
کہ زیست جیسے ہوئی ہے بیوہ اتار ڈالے تمام گہنے
سمجھ آتا ہے ہم کو دکھ بڑوں کا
ہم اپنے گھر کے بچوں میں بڑے ہیں
چوما تھا ایک دن کسی گل کی جبین کو
لہجے سے آج تک مرے خوشبو نہیں گئی
کچھ تو کریں کہ دل یہ کہیں اور جا لگے
کچھ دیر کے لئے سہی آنکھوں کو چین ہو
ایسی ہیں قربتیں کہ مجھی میں بسا ہے وہ
ایسے ہیں فاصلے کہ نہیں رابطہ نصیب
یہ تری مرضی ہے اب چاک گھما یا نہ گھما
خود کو مٹی کی طرح سونپ دیا ہے میں نے
یوں تو وہ عطر دان تھا لیکن یہ کیا ہوا
ٹوٹا تو ایک سمت بھی خوشبو نہیں گئی
بے خبر روڈ پہ ان بھاگتے بچوں کو میں
کتنی حسرت سے تھکن اوڑھے ہوئے دیکھتا ہوں
کل رات میں بہت ہی الگ سا لگا مجھے
اس کی نظر نے یوں مری صورت کھنگالی دوست