احمد صغیر کے اشعار
خدایا اپنے کن کی لاج رکھ لے
ترا شہکار ضائع ہو رہا ہے
قم بازن العشق سے دل زندہ کرے گا
ی مجھ سے محبت کے مسیحا نے کہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جواب آئے نہ آئے شکن تو آئے گی
سوال پوچھ ہی لینا اگرچہ ڈرتے ہوئے
زرد موسم نے درختوں کی زباں سل دی تھی
پھر کوئی پھول ہنسا اور خزاں ہار گئی
سویا نہیں میں برسوں تلک جس کے خوف سے
وہ خواب اب بھی چشم بدر ہو نہیں رہا
حکم سلطان کی تعمیل تمہارے لیے ہے
میں نہیں جا رہا چاہو تو یہ سر لے جاؤ
وہ جانتا ہے مگر بے وفا نہیں کہتا
اب اس کی مصلحتیں کیا بتائیں دکھ کی ہیں
اشک روکو نہیں بہہ جانے دو ورنہ اک دن
یہ نمی جسم کی دیوار کو کھا جائے گی
کیسی عجیب ہے یہ محبت کی زندگی
دو پتھروں میں جان پڑی اور مر گئے
غرور خوف انا ہاتھ پاؤں کچھ ٹوٹے
مگر جو ٹوٹ رہا ہے وہ اعتبار ہی کیوں
یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کوئی جانے تو
جرم آمیز تخیل کے ادھر کچھ نہیں تھا
اے بھٹکنے کے ارادے سے نکلنے والو
ہم سے کچھ دشت نوردی کا ہنر لے جاؤ
خواب تو چھوڑ چکے دیکھنا برسوں پہلے
دیکھ یہ کیا ہے جو تعبیر ہوا چاہتا ہے
اے رب زلیخا و خدائے ابو یوسف
اک حسن کے مارے ہوئے دو ہجر زدہ دیکھ
مجھے چراغ بجھانا پڑا تھا مجبوراً
تمہارا سایا نہیں جا رہا تھا کیا کرتا
فقط ستارے نہیں روشنی کا بوجھ بھی تھا
زمین کانپ اٹھی آسماں اٹھاتے ہوئے
اس کے مرہم سے مکر جانے کا غصہ تھا مجھے
ورنہ یہ زخم جگر بار دگر کچھ نہیں تھا
ہم متفق نہیں ہیں مجبور ہیں سو طے ہے
ساحل ترا مقدر ٹھہرا بھنور ہمارا
مثل سراب ہی سہی میرے بنے رہو
صحرا میں تشنگی کا سہارا فریب ہے
کھرچ کھرچ کے تجھے ذہن سے مٹاؤں گا
میں اپنے ہوش کے ناخن ذرا بڑھا تو لوں
زرد چہروں سے اداسی کے بچھڑنے کا سبب
لوگ پوچھیں گے تو کہہ دینا کہ دکھ ہار گیا
اس بوڑھی پجارن کے خد و خال سے پوچھو
بت اس کی تمنا کے حسیں تھے کہ نہیں تھے
اجنبیت کی جھلک دیکھی گئی لہجے میں
بات ڈرنے کی ہے اس بات پہ ڈر جائیے نا
یہ ضروری تو نہیں تھا کہ بچھڑ ہی جاتے
ہم ترے ساتھ ترا ہجر منا سکتے تھے
دسترس میں نہ رہے لفظ گری بہتر ہے
ہم اگر بول پڑیں گے تو بہت بولیں گے
تھا مست باندھنے میں وہ تمہید زخم دل
سینہ کے اک شگاف پہ انگلی دھرے ہوئے
چیختے چیختے چپ ہو گئیں ننھی روحیں
ہر مقدس در و دیوار پہ لعنت بھیجو
جانے دو ایک روز یہیں پھر کے آئے گا
جو کچھ ہے اس پہ رخت سفر جانتا ہوں میں