احمر ندیم کے اشعار
کتنے رشتوں کا میں نے بھرم رکھ لیا
اک تعلق سے دامن چھڑاتے ہوئے
احوال میرے شور سلاسل کے سن رفیق
جیسے رواں دواں کوئی دریا قفس میں ہے
تم نے چنی ہے راہ جو ہموار ہے بہت
زاہد تمہاری راہ میں پتھر نہیں کوئی
شاید میں اپنے آپ سے غافل نہ رہ سکا
کچھ لوگ میری ذات سے منسوب ہو گئے
ہم ایسے بخت کے مارے کہ شہر میں آ کر
لباس گردش دوراں بھی تار تار کیا
قافلے میں ہر اک فرد مختار ہے
قافلہ دیکھ لینا لٹے گا ضرور
دل لگانے کو سارا جہاں تھا مگر
سوچتا کون ہے دل لگاتے ہوئے
گمان ہونے لگا ہے یہ کس کے ہونے پر
کہیں کہیں جو نہیں ہے کہیں کہیں ہے بہت
یہ کیا کہ ایک تال پہ دنیا ہے محو رقص
اس گردش کہن کو نئے صبح و شام دے
یہ کیسی فصاحت کہ سمجھ میں نہیں آتی
تحریر محبت ذرا آسان لکھا کر
ہم اپنے آپ میں رہتے نہیں ہیں دم بھر کو
ہمارے واسطے دیوار و در کی زحمت کیا
موت برحق ہے جب آ جائے ہمیں کیا لیکن
زندگی ہم تری رفتار سے ڈر جاتے ہیں