احمر ندیم کے اشعار
کتنے رشتوں کا میں نے بھرم رکھ لیا
اک تعلق سے دامن چھڑاتے ہوئے
کتنے ہی راز سب پر عیاں ہو گئے
اک ترا راز الفت چھپاتے ہوئے
دل لگانے کو سارا جہاں تھا مگر
سوچتا کون ہے دل لگاتے ہوئے
موت برحق ہے جب آ جائے ہمیں کیا لیکن
زندگی ہم تری رفتار سے ڈر جاتے ہیں
قافلے میں ہر اک فرد مختار ہے
قافلہ دیکھ لینا لٹے گا ضرور
یہ کیسی فصاحت کہ سمجھ میں نہیں آتی
تحریر محبت ذرا آسان لکھا کر
شاید میں اپنے آپ سے غافل نہ رہ سکا
کچھ لوگ میری ذات سے منسوب ہو گئے
تیری خواہش بھی نہ ہو تجھ سے شکایت بھی نہ ہو
اتنا احسان مری جان نہیں کرنا تھا
احوال میرے شور سلاسل کے سن رفیق
جیسے رواں دواں کوئی دریا قفس میں ہے
تم نے چنی ہے راہ جو ہموار ہے بہت
زاہد تمہاری راہ میں پتھر نہیں کوئی
ہم ایسے بخت کے مارے کہ شہر میں آ کر
لباس گردش دوراں بھی تار تار کیا
ہم اپنے آپ میں رہتے نہیں ہیں دم بھر کو
ہمارے واسطے دیوار و در کی زحمت کیا
گمان ہونے لگا ہے یہ کس کے ہونے پر
کہیں کہیں جو نہیں ہے کہیں کہیں ہے بہت