اختر نظمی کے دوہے
بھاری بوجھ پہاڑ سا کچھ ہلکا ہو جائے
جب میری چنتا بڑھے ماں سپنے میں آئے
عادت سے لاچار ہے عادت نئی عجیب
جس دن کھایا پیٹ بھر سویا نہیں غریب
چھیڑ چھاڑ کرتا رہا مجھ سے بہت نصیب
میں جیتا ترکیب سے ہارا وہی غریب
کھول دیے کچھ سوچ کر سب پنجروں کے دوار
اب کوئی پنچھی نہیں اڑنے کو تیار
ندیا نے مجھ سے کہا مت آ میرے پاس
پانی سے بجھتی نہیں انتر من کی پیاس
جیون بھر جس نے کئے اونچے پیڑ تلاش
بیری پر لٹکی ملی اس چڑیا کی لاش
ذکر وہی آٹھوں پہر وہی کتھا دن رات
بھول سکے تو بھول جا گئے دنوں کی بات