انس خان کے دوہے
خود کو چھوٹا کر لیا خود میں خود کو بھینچ
بالآخر چرخاب نے لیا سمندر کھینچ
دن میں مذہب جاگتا لاکھ بھلی ہے رات
ہر تن لاگے ایک سا اک ہی لاگے ذات
چھپا گیا گہرائی میں دریا اپنا حال
میں جب بھی اندر گیا باہر دیا اچھال
قسمت سے جب وصل کی پیدا ہوئی سبیل
پاس سمندر دیکھ کر بھاری ہو گئی جھیل
تو مجھ میں محدود ہے میں تجھ میں محدود
میرے سائے میں ترا دکھنے لگا وجود
تو پربت سے لائی ہے سنگ اپنے دھن دھان
گنگا پھر کیوں کھیت میں بھوکا کھڑا کسان
آنکھوں میں پانی بھرا پانی میں گرداب
خواب ہتھیلی پر لیے کھڑا رہا تالاب
گھس گئی ہڈی ریڑھ کی جھکنے لگا شریر
لوچ کھا گئی چھت مری بکھر گئے شہتیر
اپنے ہی سب ہاتھ چھڑا لیں برا چلے جو کال
عمریں جتنی بڑھتی جائیں اڑتے جائیں بال
شرابور پلکیں ہوئیں کاجل گیا ہے پھیل
اشکوں کے سیلاب میں بکھر گئی کھپریل
کوئی سنبھالے دیر تو کوئی بچائے دین
انسؔ بچا لو آپ ہی مرتی ہوئی زمین
روح بدن سے کھینچ کر کی تجھ پر قربان
آسمان دھرتی تجھے بھرتی رہی لگان
تو تو فقط زمین ہے پھر بھی ترا قصور
گر املی کے بیج سے نکلا نہیں کھجور
ایک آنکھ میں دو پتلی ہوں تب ہوگا آدھار
اک پتلی انتر من دیکھے اک دیکھے سنسار
روح بدن کے ساتھ تھی جگ نے دے دی تاپ
پانی نیچے رہ گیا اوپر اڑ گئی بھاپ
ہر کروٹ پر ہلچل ہوئے من بھی آپا کھوئے
کون بسا ہے میرے اندر کھنن کھنن کھن ہوئے
پا کر نینن میں اسے تھرک اٹھا تھا نیر
آنچ لگی جب دیر تک افن گئی تصویر
پنچھی اڑ کر چل دیا سوکھ گئی جب جھیل
موت ہے اصلی زندگی موت نہیں تکمیل
رات امس میں تر ہوئے لیکن کھلے نہ باب
الگنیوں پر نین کی دن بھر سوکھے خواب
تنی رہی یہ کھال بھی جب تک رہے جوان
انسؔ مسلسل بوجھ سے جھول گئی ادوان
تن بوڑھا ہونے لگا دھندھلے ہو گئے خواب
رنگ سیاہی کا اڑا مٹنے لگی کتاب
باہر کی اک ٹھیس بھی پیدا کر دے کھوٹ
انڈا جیون پائے جب ہو اندر سے چوٹ
سدھ بدھ کھو گئی بانوری جس دن کھلا فریب
ندیا میں گاگر ملی پنگھٹ پر پازیب
بھنور لگے جب کھینچنے تند ہوا کے بال
ہوا نوچنے لگ گئی دریاؤں کی کھال
اپنوں کو جب ہم نے پرکھا کھل گئی سب کی پول
جگر کلیجہ تھر تھر کانپے جیبھ نہ کھائی جھول
باہر کی اک ٹھیس بھی پیدا کر دے کھوٹ
انڈا جیون پائے جب ہو اندر سے چوٹ
پہلے ہوا کسان کا بالو بالو کھیت
پھر آندھی مہنگائی کی بھر گئی منہ میں ریت
پیروں سے کمزور تھی پھر بھی پلٹا کھیل
لپٹ لپٹ کر پیڑ سے اوپر چڑھ گئی بیل
کل یہ ہی بن جائے گی اسی گلے کی پھانس
آج ہوا انمول ہے کھینچ زیادہ سانس
راون زندہ ہی رہا صدیوں جلا شریر
ترکش میں تھا ہی نہیں کبھی رام کے تیر
کیا مانگیں بھگوان سے کیا دے گا یہ دیر
رکشا خود چلتا نہیں بنا چلائے پیر
ملے جو نینن مد بھرے دھڑکا من کا دوار
تن کے اس دربار کا من ہے چوکیدار
پرکھوں کی تصویر گلے میں واحد بنی دلیل
سارے گھر کا مان سنبھالے ایک اکیلی کیل