Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anas Khan's Photo'

انس خان

1983 | دلی, انڈیا

انس خان کے دوہے

1.2K
Favorite

باعتبار

عمر سے دھوکا کھا گئے پرکھا نہیں ضمیر

بچہ بچہ ہی رہا بڑھتا رہا شریر

اے سترنگی روشنی کیسی شکل بنائی

جو رنگ اپنایا نہیں وہ ہی دیا دکھائی

اپنی ضد کی آگ میں زخمی کئے گلاب

اک وحشی نے ڈال کر کلیوں پر تیزاب

یہ دنیا کی ریت ہے یا دنیا کا دین

جو اوپر چڑھنے لگے کھینچے اسے زمین

ملا پنڈت سب یہاں کرتے رہے فریب

سوچ رہا نیوٹن وہاں گرتا کیوں ہے سیب

مسجد میں پیدا ہوا سیکھی وہی زبان

طوطا مندر پہ چڑھا دینے لگا اذان

ناری جگ کی نیو ہے رشتوں کا آدھار

جیسی نظریں ڈالیے ویسا لے آکار

بڑے شہر سے اپنی دوری رکھیے میلوں میل

جتنی دور سمندر سے ہو اتنی میٹھی جھیل

دنیا ایک سراب ہے پختہ ہوا یقین

میں جتنا چلتا گیا اتنی چلی زمین

مذہب نے جو ٹھونک دی ہلی نہیں وہ کیل

قدرت ہر مخلوق کو روز کرے تبدیل

اپنے اندر میں گیا اک دن کرنے سیر

اتنا آگے بڑھ گیا پیچھے چھوٹے پیر

ان آنکھوں میں قید ہے اس دنیا کا سار

باہر خالی عکس ہے اندر ہے سنسار

راون زندہ ہی رہا صدیوں جلا شریر

ترکش میں تھا ہی نہیں کبھی رام کے تیر

پنچھی اڑ کر چل دیا سوکھ گئی جب جھیل

موت ہے اصلی زندگی موت نہیں تکمیل

دن میں مذہب جاگتا لاکھ بھلی ہے رات

ہر تن لاگے ایک سا اک ہی لاگے ذات

کیا مانگیں بھگوان سے کیا دے گا یہ دیر

رکشا خود چلتا نہیں بنا چلائے پیر

پرکھوں کی تصویر گلے میں واحد بنی دلیل

سارے گھر کا مان سنبھالے ایک اکیلی کیل

پہلے ہوا کسان کا بالو بالو کھیت

پھر آندھی مہنگائی کی بھر گئی منہ میں ریت

تن بوڑھا ہونے لگا دھندھلے ہو گئے خواب

رنگ سیاہی کا اڑا مٹنے لگی کتاب

ہر کروٹ پر ہلچل ہوئے من بھی آپا کھوئے

کون بسا ہے میرے اندر کھنن کھنن کھن ہوئے

اپنے ہی سب ہاتھ چھڑا لیں برا چلے جو کال

عمریں جتنی بڑھتی جائیں اڑتے جائیں بال

روح نہیں یہ روئی ہے انساں ایک لحاف

جب جب یہ میلا ہوا بدلا گیا غلاف

جن کاندھوں پر جھول کر چھوتا تھا آکاش

اک دروازے میں ملی اسی پیڑ کی لاش

کل یہ ہی بن جائے گی اسی گلے کی پھانس

آج ہوا انمول ہے کھینچ زیادہ سانس

تو مجھ میں محدود ہے میں تجھ میں محدود

میرے سائے میں ترا دکھنے لگا وجود

ایک آنکھ میں دو پتلی ہوں تب ہوگا آدھار

اک پتلی انتر من دیکھے اک دیکھے سنسار

روح بدن کے ساتھ تھی جگ نے دے دی تاپ

پانی نیچے رہ گیا اوپر اڑ گئی بھاپ

تو تو فقط زمین ہے پھر بھی ترا قصور

گر املی کے بیج سے نکلا نہیں کھجور

چھپا گیا گہرائی میں دریا اپنا حال

میں جب بھی اندر گیا باہر دیا اچھال

کوئی سنبھالے دیر تو کوئی بچائے دین

انسؔ بچا لو آپ ہی مرتی ہوئی زمین

سب تیری سائنس ہے پھر یہ کیسا یوگ

خدا نمائندے ترے اتنے پچھڑے لوگ

ملے جو نینن مد بھرے دھڑکا من کا دوار

تن کے اس دربار کا من ہے چوکیدار

بدن اندھیری کوٹھری کھوجو دیا سلائی

انسؔ جگاؤ چیتنا روشن کرو خدائی

مچھلی جوگن ہو گئی چھوڑ دیا ہے تال

ہم نے انجانے کبھی پھینک دیا تھا جال

من کے بھیتر پریم ہے باہر کوچ کٹھور

اتنا میٹھا جل ملے جتنا گہرا بور

پیروں سے کمزور تھی پھر بھی پلٹا کھیل

لپٹ لپٹ کر پیڑ سے اوپر چڑھ گئی بیل

آنکھوں میں پانی بھرا پانی میں گرداب

خواب ہتھیلی پر لیے کھڑا رہا تالاب

پیڑ زرد ہونے لگے پھول ہوئے رسہین

لہو شجر کا کھینچ کر پینے لگی زمین

سدھ بدھ کھو گئی بانوری جس دن کھلا فریب

ندیا میں گاگر ملی پنگھٹ پر پازیب

یہ کہہ کر تلوار نے چھوڑی آج میان

قید حصار جسم میں اب نہ رہے گی جان

گھس گئی ہڈی ریڑھ کی جھکنے لگا شریر

لوچ کھا گئی چھت مری بکھر گئے شہتیر

شرابور پلکیں ہوئیں کاجل گیا ہے پھیل

اشکوں کے سیلاب میں بکھر گئی کھپریل

خود کو چھوٹا کر لیا خود میں خود کو بھینچ

بالآخر چرخاب نے لیا سمندر کھینچ

فطرت سے کی اس قدر انسانوں نے چھیڑ

نکلا جنگل جنگ پر لے مٹھی بھر پیڑ

باہر کی اک ٹھیس بھی پیدا کر دے کھوٹ

انڈا جیون پائے جب ہو اندر سے چوٹ

اپنوں کو جب ہم نے پرکھا کھل گئی سب کی پول

جگر کلیجہ تھر تھر کانپے جیبھ نہ کھائی جھول

ماضی کب کا سو گیا سر پر چادر تان

انسؔ کہاں سے جسم پر آنے لگے نشان

دور قیامت روک دے کر مجھ کو برباد

میرے خاطر آئے کیوں دنیا پر افتاد

ہم نے کی ہے گائے کی مذہب سے پہچان

لیکن دیکھا گائے نے سب کو ایک سمان

کوزہ گر کی انگلیاں روح مری مڑھ جائیں

ہولے سے تن کو چھوئیں اندر تک گڑھ جائیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے