Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقیل عباس کے اشعار

114
Favorite

باعتبار

جانے اس وقت کہاں فون پڑا ہو اس کا

جانے اس وقت وہ کس شخص کی آغوش میں ہو

سفر نگل گئے ہم کو وگرنہ ہم نے بھی

کہیں پہنچ کے کسی کو گلے لگانا تھا

جن دنوں عشق نہیں ہوتا تھا

کالے پانی کی سزا ہوتی تھی

سکوں لپیٹ کے کونے میں پھینک دیتی ہے

کہ جیسے کام پہ آتی ہے کھلبلی مجھ میں

خدا کو خط لکھوں گا خودکشی کا

لکھوں گا میں ریزائن کر رہا ہوں

اس کی آنکھوں پہ مرے پاس کوئی شعر نہیں

ایک مضمون ہے مضمون بھی تفصیلی ہے

یہ کون پائنچے اونچے کیے اترتا ہے

ہماری آنکھ میں سیلاب دیکھنے کے لیے

ایک بوسہ ادھار ہے تم پر

اور چائے بھی تیز پتی کی

وہ آ گئی تو مروت میں پیش کرنا پڑی

وہ چائے اس کی نہیں تھی جو اس نے پی لی تھی

بات کرتے ہوئے پیروں کی طرف دیکھتا ہوں

اپنے مالک کی طبیعت کا پتا ہے مجھ کو

روز کرتی ہے وہ مٹی سے لپائی لیکن

روز دیوار میں سوراخ نکل آتا ہے

پانی کی پیش رفت نے سوکھا بھگا دیا

بارش کے بعد گھاس کی ٹکڑی لہک اٹھی

دریا نے بھی بھاگ بھری کی گاگر اتنی بھر دی ہے

اب گاگر کے ہونٹ بھگوتے جاتے ہیں پگڈنڈی کو

کلاس روم میں اتنا سمے نہیں ہوتا

یہ سانحہ تمہیں گھر سے بنا کے لانا تھا

بدن تو تھا ہی نہیں آگ تھی مجسم آگ

ہم اس سے ملتے نہیں تو جلے نہیں ہوتے

شکم سے ماں کے گلی سے تمہاری دنیا سے

جہاں کہیں سے بھی نکلے ہیں روتے نکلے ہیں

اس نے عجلت میں غلط سل پہ قدم رکھا تھا

پیچ کھاتے ہوئے زینوں نے اسے گھیر لیا

آپ کی سبز نگاہی کا فسوں طاری ہوا

اور منظر نے کوئی تازہ جتن کات لیا

تیرگی میں آدمی کو حوصلہ دیتے ہوئے

ہر ستارے کو فرشتہ مان لینا چاہیے

سپہ گری کا ہنر بھی سخن وری بھی ہو

میں چاہتا ہوں کہ لشکر بھی ہو پری بھی ہو

خیر کی ساری دعاؤں کا بھلا ہو لڑکی

ایک بوسہ دم رخصت کہ گرانی نکلے

گلے لگا کے روانہ بھی کر سکوں اس کو

پلٹ کے آئے تو سازش کی مخبری بھی ہو

رات وہ شاخ بدن مجھ پہ جھکی جاتی تھی

اور پھل منہ کو پہنچتا تھا لگا جو بھی تھا

توے پر بوند پڑنے کا عمل ہے

میں جس مٹی پہ کن من کر رہا ہوں

وقت فرماں روائے دلی ہے

اور میں بھکت ہوں بریلی کا

دو گھڑی نیند کی مہلت ہے وہ غم تاک میں ہے

جس طرح سانپ کا بچہ کوئی پاپوش میں ہو

بالا خانے سے چیخ اٹھتی تھی

اور در بند تھا حویلی کا

دوستوں کو بھی تہ بہ تہ رکھ دے

جیسے رکھتی ہے تو لباس اپنے

در وجود پہ جانے تو کس سے مل آئی

کہ چار پانچ تو رہتے ہیں آدمی مجھ میں

بدن طبلہ ہوا جاتا ہے دکھ سے

تنک دھن دھن تنک دھن کر رہا ہوں

لمس حسن عجیب کی خواہش

سر اٹھاتی تھی مار دی میں نے

زندگی میں تجھے رستے سے اٹھا لایا ہوں

تو کسی اور سے ٹکرائی تھی آگے میں تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے