Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقیل عباس کے اشعار

280
Favorite

باعتبار

خدا کو خط لکھوں گا خودکشی کا

لکھوں گا میں ریزائن کر رہا ہوں

سفر نگل گئے ہم کو وگرنہ ہم نے بھی

کہیں پہنچ کے کسی کو گلے لگانا تھا

ایک بوسہ ادھار ہے تم پر

اور چائے بھی تیز پتی کی

جانے اس وقت کہاں فون پڑا ہو اس کا

جانے اس وقت وہ کس شخص کی آغوش میں ہو

سپہ گری کا ہنر بھی سخن وری بھی ہو

میں چاہتا ہوں کہ لشکر بھی ہو پری بھی ہو

کلاس روم میں اتنا سمے نہیں ہوتا

یہ سانحہ تمہیں گھر سے بنا کے لانا تھا

زندگی میں تجھے رستے سے اٹھا لایا ہوں

تو کسی اور سے ٹکرائی تھی آگے میں تھا

اس کی آنکھوں پہ مرے پاس کوئی شعر نہیں

ایک مضمون ہے مضمون بھی تفصیلی ہے

بدن طبلہ ہوا جاتا ہے دکھ سے

تنک دھن دھن تنک دھن کر رہا ہوں

بات کرتے ہوئے پیروں کی طرف دیکھتا ہوں

اپنے مالک کی طبیعت کا پتا ہے مجھ کو

بدن تو تھا ہی نہیں آگ تھی مجسم آگ

ہم اس سے ملتے نہیں تو جلے نہیں ہوتے

لمس حسن عجیب کی خواہش

سر اٹھاتی تھی مار دی میں نے

سکوں لپیٹ کے کونے میں پھینک دیتی ہے

کہ جیسے کام پہ آتی ہے کھلبلی مجھ میں

در وجود پہ جانے تو کس سے مل آئی

کہ چار پانچ تو رہتے ہیں آدمی مجھ میں

یہ کون پائنچے اونچے کیے اترتا ہے

ہماری آنکھ میں سیلاب دیکھنے کے لیے

تیرگی میں آدمی کو حوصلہ دیتے ہوئے

ہر ستارے کو فرشتہ مان لینا چاہیے

رات وہ شاخ بدن مجھ پہ جھکی جاتی تھی

اور پھل منہ کو پہنچتا تھا لگا جو بھی تھا

وقت فرماں روائے دلی ہے

اور میں بھکت ہوں بریلی کا

جن دنوں عشق نہیں ہوتا تھا

کالے پانی کی سزا ہوتی تھی

خیر کی ساری دعاؤں کا بھلا ہو لڑکی

ایک بوسہ دم رخصت کہ گرانی نکلے

وہ آ گئی تو مروت میں پیش کرنا پڑی

وہ چائے اس کی نہیں تھی جو اس نے پی لی تھی

پانی کی پیش رفت نے سوکھا بھگا دیا

بارش کے بعد گھاس کی ٹکڑی لہک اٹھی

بالا خانے سے چیخ اٹھتی تھی

اور در بند تھا حویلی کا

گلے لگا کے روانہ بھی کر سکوں اس کو

پلٹ کے آئے تو سازش کی مخبری بھی ہو

شکم سے ماں کے گلی سے تمہاری دنیا سے

جہاں کہیں سے بھی نکلے ہیں روتے نکلے ہیں

روز کرتی ہے وہ مٹی سے لپائی لیکن

روز دیوار میں سوراخ نکل آتا ہے

دو گھڑی نیند کی مہلت ہے وہ غم تاک میں ہے

جس طرح سانپ کا بچہ کوئی پاپوش میں ہو

اس نے عجلت میں غلط سل پہ قدم رکھا تھا

پیچ کھاتے ہوئے زینوں نے اسے گھیر لیا

دوستوں کو بھی تہ بہ تہ رکھ دے

جیسے رکھتی ہے تو لباس اپنے

دریا نے بھی بھاگ بھری کی گاگر اتنی بھر دی ہے

اب گاگر کے ہونٹ بھگوتے جاتے ہیں پگڈنڈی کو

توے پر بوند پڑنے کا عمل ہے

میں جس مٹی پہ کن من کر رہا ہوں

آپ کی سبز نگاہی کا فسوں طاری ہوا

اور منظر نے کوئی تازہ جتن کات لیا

Recitation

بولیے