عارفہ شہزاد کے اشعار
تجھے آغاز ہی سے پڑھ لیا تھا
ترے چہرے پہ سب لکھا ہوا تھا
نشتر جیسا اندر اک چبھتا کانٹا ہے
جانے اس نے دکھ بانٹا یا دل بانٹا ہے
خواب میں جاگتی بے خوابی پتا پوچھتی ہے
کیا کہیں نیند بھی ہوتی ہے سلانے والی
اب بھی مت پوچھ مرے دل میں ہے کیا رہنے دے
بات ویسے بھی نہیں تجھ کو بتانے والی