اصغر ویلوری کے اشعار
ترے محل میں ہزاروں چراغ جلتے ہیں
یہ میرا گھر ہے یہاں دل کے داغ جلتے ہیں
شکار اپنی انا کا ہے آج کا انساں
جسے بھی دیکھیے تنہا دکھائی دیتا ہے
لوگ اچھوں کو بھی کس دل سے برا کہتے ہیں
ہم کو کہنے میں بروں کو بھی برا لگتا ہے
دنیا سے ختم ہو گیا انسان کا وجود
رہنا پڑا ہے ہم کو درندوں کے درمیاں
روشنی جب سے مجھے چھوڑ گئی
شمع روتی ہے سرہانے میرے
ان کے ہاتھوں سے ملا تھا پی لیا
زہر تھا پر ذائقہ اچھا لگا
مجھ کو غم کا نہ کبھی درد کا احساس رہا
ہر خوشی پاس تھی جب تک تو مرے پاس رہا
اے چارہ گرو پاس تمہارے نہ ملے گی
بیمار محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے
کھلنا ہر ایک پھول کا اصغرؔ ہے معجزہ
مرجھاتی ہے کلی بھی بہاروں کے درمیاں
پڑھتے تھے کتابوں میں قیامت کا سماں
نیپال میں کچھ اس کا نمونہ دیکھا
زندگی سے سمجھوتا آج ہو گیا کیسے
روز روز تو ایسے سانحے نہیں ہوتے