Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asif Bilal's Photo'

نئی نسل کے نمائندہ شاعروں میں شامل، غزل میں بے ساختگی کا اظہار

نئی نسل کے نمائندہ شاعروں میں شامل، غزل میں بے ساختگی کا اظہار

آصف بلال کے اشعار

100
Favorite

باعتبار

ترقیات کی یہ کون سی گھڑی ہے جہاں

سب اپنے آپ میں بازار ہونا چاہتے ہیں

ہم نے جس حادثے پہ صبر کیا

آپ ہوتے تو مر گئے ہوتے

جانے لگتا ہوں تو وہ پاؤں پکڑ لیتا ہے

اور ستم یہ ہے کہ سینے سے لگاتا بھی نہیں

گاؤں کے نرم رویوں میں پلے ہیں ہم لوگ

شہر میں کوئی نگہبان ضروری ہے میاں

تمہیں ہم اس لیے بھی سوچتے رہتے ہیں اکثر

کہ اک تصویر میں دھندلا سا ہے چہرا تمہارا

میں اک ایسے گاؤں کا رہنے والا تھا

سیلابوں میں جس کے گھر کٹ جاتے تھے

ہم نے جس حادثے پہ صبر کیا

آپ ہوتے تو مر گئے ہوتے

جانے لگتا ہوں تو وہ پاؤں پکڑ لیتا ہے

اور ستم یہ ہے کہ سینے سے لگاتا بھی نہیں

تکتے رہتے تھے کنارے سے مسلسل دونوں

جانے دریا میں بھی کیا وقت بہائے گئے تھے

گزشتہ کچھ دنوں سے جانے کس الجھاؤ میں ہے دل

کہ ہم بیٹھے بھی رہتے ہیں غزل خوانی نہیں ہوتی

تم کہو تم بھی تڑپتے ہو تعلق کے تئیں

یا مرے ہی دل بسمل کی یہ بیماری ہے

وہ لمحے بھر کو تصور سے بھی نہیں جاتا

اسی لیے تو اسے اپنی جان بولتے ہیں

پیچ در پیچ ہوئی جاتی ہے دنیا ہم پر

جانے کیوں اس پہ ہم آسان ہوئے جاتے ہیں

اب بہت دشت نوردی ہوئی آصفؔ صاحب

اب بدن موت کی آواز پہ ہاں چاہتا ہے

عالم ہو میں سہی شور تو کر لینے دو

اپنے ہونے کا بھی اعلان ضروری ہے میاں

ہم ایک میز پہ جب ساتھ ساتھ بیٹھے تھے

تو درمیان کوئی اور وقت چل رہا تھا

تم کہو تم بھی تڑپتے ہو تعلق کے تئیں

یا مرے ہی دل بسمل کی یہ بیماری ہے

اک حرف تسلی تھا مداوائے غم ہجر

جس وقت تو پہلو سے مرے اٹھ کے گیا تھا

رات ہی رات چلے جاؤ مرے ہم سفرو

صبح ممکن ہے یہی دشت ہی مقتل ہو جائے

میں اک ایسے گاؤں کا رہنے والا تھا

سیلابوں میں جس کے گھر کٹ جاتے تھے

ترقیات کی یہ کون سی گھڑی ہے جہاں

سب اپنے آپ میں بازار ہونا چاہتے ہیں

رات ہی رات چلے جاؤ مرے ہم سفرو

صبح ممکن ہے یہی دشت ہی مقتل ہو جائے

گزشتہ کچھ دنوں سے جانے کس الجھاؤ میں ہے دل

کہ ہم بیٹھے بھی رہتے ہیں غزل خوانی نہیں ہوتی

ہم ایک میز پہ جب ساتھ ساتھ بیٹھے تھے

تو درمیان کوئی اور وقت چل رہا تھا

اب بہت دشت نوردی ہوئی آصفؔ صاحب

اب بدن موت کی آواز پہ ہاں چاہتا ہے

آشفتگی ازل سے مرے آب و گل میں ہے

کل لذت حیات غم جاں گسل میں ہے

عالم ہو میں سہی شور تو کر لینے دو

اپنے ہونے کا بھی اعلان ضروری ہے میاں

اب اس ہجوم میں پہچان کھو گئی میری

کسی بدن کے لیے استعارہ تھا پہلے

تمہیں ہم اس لیے بھی سوچتے رہتے ہیں اکثر

کہ اک تصویر میں دھندلا سا ہے چہرا تمہارا

وہ لمحے بھر کو تصور سے بھی نہیں جاتا

اسی لیے تو اسے اپنی جان بولتے ہیں

تکتے رہتے تھے کنارے سے مسلسل دونوں

جانے دریا میں بھی کیا وقت بہائے گئے تھے

ہم ایسے لوگ بہت دیر تک نہیں رہتے

یقین جانیے کوئی کمال ہو رہا ہے

گاؤں کے نرم رویوں میں پلے ہیں ہم لوگ

شہر میں کوئی نگہبان ضروری ہے میاں

ہم ایسے لوگ بہت دیر تک نہیں رہتے

یقین جانیے کوئی کمال ہو رہا ہے

آشفتگی ازل سے مرے آب و گل میں ہے

کل لذت حیات غم جاں گسل میں ہے

پیچ-در-پیچ ہوئی جاتی ہے دنیا ہم پر

جانے کیوں اس پہ ہم آسان ہوئے جاتے ہیں

اب اس ہجوم میں پہچان کھو گئی میری

کسی بدن کے لیے استعارہ تھا پہلے

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے