آصف بلال کے اشعار
ترقیات کی یہ کون سی گھڑی ہے جہاں
سب اپنے آپ میں بازار ہونا چاہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جانے لگتا ہوں تو وہ پاؤں پکڑ لیتا ہے
اور ستم یہ ہے کہ سینے سے لگاتا بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گاؤں کے نرم رویوں میں پلے ہیں ہم لوگ
شہر میں کوئی نگہبان ضروری ہے میاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہیں ہم اس لیے بھی سوچتے رہتے ہیں اکثر
کہ اک تصویر میں دھندلا سا ہے چہرا تمہارا
میں اک ایسے گاؤں کا رہنے والا تھا
سیلابوں میں جس کے گھر کٹ جاتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جانے لگتا ہوں تو وہ پاؤں پکڑ لیتا ہے
اور ستم یہ ہے کہ سینے سے لگاتا بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تکتے رہتے تھے کنارے سے مسلسل دونوں
جانے دریا میں بھی کیا وقت بہائے گئے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گزشتہ کچھ دنوں سے جانے کس الجھاؤ میں ہے دل
کہ ہم بیٹھے بھی رہتے ہیں غزل خوانی نہیں ہوتی
تم کہو تم بھی تڑپتے ہو تعلق کے تئیں
یا مرے ہی دل بسمل کی یہ بیماری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ لمحے بھر کو تصور سے بھی نہیں جاتا
اسی لیے تو اسے اپنی جان بولتے ہیں
پیچ در پیچ ہوئی جاتی ہے دنیا ہم پر
جانے کیوں اس پہ ہم آسان ہوئے جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب بہت دشت نوردی ہوئی آصفؔ صاحب
اب بدن موت کی آواز پہ ہاں چاہتا ہے
عالم ہو میں سہی شور تو کر لینے دو
اپنے ہونے کا بھی اعلان ضروری ہے میاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم ایک میز پہ جب ساتھ ساتھ بیٹھے تھے
تو درمیان کوئی اور وقت چل رہا تھا
تم کہو تم بھی تڑپتے ہو تعلق کے تئیں
یا مرے ہی دل بسمل کی یہ بیماری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک حرف تسلی تھا مداوائے غم ہجر
جس وقت تو پہلو سے مرے اٹھ کے گیا تھا
رات ہی رات چلے جاؤ مرے ہم سفرو
صبح ممکن ہے یہی دشت ہی مقتل ہو جائے
میں اک ایسے گاؤں کا رہنے والا تھا
سیلابوں میں جس کے گھر کٹ جاتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ترقیات کی یہ کون سی گھڑی ہے جہاں
سب اپنے آپ میں بازار ہونا چاہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رات ہی رات چلے جاؤ مرے ہم سفرو
صبح ممکن ہے یہی دشت ہی مقتل ہو جائے
گزشتہ کچھ دنوں سے جانے کس الجھاؤ میں ہے دل
کہ ہم بیٹھے بھی رہتے ہیں غزل خوانی نہیں ہوتی
ہم ایک میز پہ جب ساتھ ساتھ بیٹھے تھے
تو درمیان کوئی اور وقت چل رہا تھا
اب بہت دشت نوردی ہوئی آصفؔ صاحب
اب بدن موت کی آواز پہ ہاں چاہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آشفتگی ازل سے مرے آب و گل میں ہے
کل لذت حیات غم جاں گسل میں ہے
عالم ہو میں سہی شور تو کر لینے دو
اپنے ہونے کا بھی اعلان ضروری ہے میاں
اب اس ہجوم میں پہچان کھو گئی میری
کسی بدن کے لیے استعارہ تھا پہلے
تمہیں ہم اس لیے بھی سوچتے رہتے ہیں اکثر
کہ اک تصویر میں دھندلا سا ہے چہرا تمہارا
وہ لمحے بھر کو تصور سے بھی نہیں جاتا
اسی لیے تو اسے اپنی جان بولتے ہیں
تکتے رہتے تھے کنارے سے مسلسل دونوں
جانے دریا میں بھی کیا وقت بہائے گئے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم ایسے لوگ بہت دیر تک نہیں رہتے
یقین جانیے کوئی کمال ہو رہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گاؤں کے نرم رویوں میں پلے ہیں ہم لوگ
شہر میں کوئی نگہبان ضروری ہے میاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم ایسے لوگ بہت دیر تک نہیں رہتے
یقین جانیے کوئی کمال ہو رہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آشفتگی ازل سے مرے آب و گل میں ہے
کل لذت حیات غم جاں گسل میں ہے
پیچ-در-پیچ ہوئی جاتی ہے دنیا ہم پر
جانے کیوں اس پہ ہم آسان ہوئے جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ