اسلم حنیف کے دوہے
پھیلا ہوا ہے ہر طرف ایک عجب ہیجان
شہر میں آ کر مٹ گئی میری بھی پہچان
برے جو تیرے دوست ہیں برا نہ ان کو جان
ہوتی نہیں بدبو بنا خوشبو کی پہچان
تو میرے احساس کا جب بھی بنا آدھار
سورج میری اوٹ سے نکلا سو سو بار
جب بھی آؤں چوری چھپے اس کے گھر کی اور
دنیا دیکھے باگ سی من میں ناچے مور
گوری لوٹی باغ سے گاتی ہوئی ملہار
کرنوں کو جب چگ گئی چڑیوں کی چہکار
دنیا کو ہم سیکھ دیں بدلیں نہ اپنے ڈھنگ
یہ بھی اک کھلواڑ ہے سچائی کے سنگ